ہندوستان کے پاس لاک ڈاون کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا

   

روش کمار
اکیس دنوں کے لئے پورے ہندوستان میں لاک ڈاون کیا گیا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی ہندوستان بند ہوگیا تھا لیکن اس فیصلے سے مرکزی حکومت کے دفتر بھی بند ہو جائیں گے جو خدمات انجام دے رہے تھے جسے محکمہ ڈاک وغیرہ خیر اس کی تفصیلات کا انتظار کیجئے۔
دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نے وینٹی لیٹر، ماسک Protective gear اور ٹسٹ کٹ کی بات کی ۔ اس کے لئے 15000 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ 24 ماچ کو وزیر اعظم نے خطاب کیا ۔ میں اپنے ہی فیس بک صفحہ پر کب سے وینٹی لیٹرس کی بات کررہا تھا تب لوگ مجھے منفی ذہنیت والا قرار دے رہے تھے۔ گالی دینے والے جاکر دیکھیں کہ میرا وہ پوسٹ موجودہ حالات میں کتنا ضروری ہے۔ آپ ایسا ماحولیاتی نظام نہ بنائیں کہ لوگ ضروری اور اہم بات کہنے سے ڈر جائیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ 24 مارچ کو وینٹی لیٹر کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس پابندی کے عائد کرنے میں تاخیر سے کتنے وینٹی لیٹرس برآمد کردیئے گئے۔ یاد رکھیں 30 جنوری کو ہندوستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس منظر عام پر آیا تھا۔ ہر ملک وینٹی لیٹرس کی تلاش میں ہے۔ بجٹ کے اعلان سے وینٹی لیٹرس کے انتظامات نہیں ہوں گے۔ وینٹی لیٹرس بنانے والی کمپنیاں برآمد کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ سیدھے سیدھے انٹرنٹ سرچ سے کسی کو بھی پتہ چل سکتا ہیکہ وینٹی لیٹرس اور ماسک کی سربراہی ناممکن سی ہوگئی ہے۔ دنیا کے ملک چیخ و پکار کررہے ہیں، کمپنیوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا رہے ہیں کہ آپ بناسکتے ہیں آپ بنادیں۔ ہندوستان نے 24 مارچ کو وینٹی لیٹر اور سینٹائزرس کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے۔ 24 مارچ کو وینٹی لیٹر اور اسپتالوں کی ضروری چیزوں کے لئے بجٹ کا اعلان ہوا؟ انہیں برآمد کیسے کیا جائے گا؟ آج صبح بھی میں نے یہی کہا جب بھوجپوری میں فیس بک لائیو کررہا تھا بہرحال جو بھی ہے 21 دنوں تک کے لاک ڈاون پر سختی سے پابندی کیجئے۔ آپ بہتر طریقہ سے کر بھی رہے تھے اور بھی سختی سے کیجئے۔

کیا کجریوال حکومت کی اسکیم مزدوروں تک پہنچ گئی ہے
وہ کیسے اس اسکیم سے استفادہ کریں گے۔ دہلی سرکار کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔ 5000 روپے ایک اچھی خاصی رقم ہے اور اس سے مہینے بھر کے راشن کا انتظام ہوسکتا ہے۔ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے کہا ہے کہ دہلی میں کورونا وائرس کے باعث تعمیراتی شعبہ کے مزدوروں کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ انہیں حکومت پانچ ہزار روپے دے گی۔ تعمیراتی مزدوروں کی کمائی بند ہوگئی ہے۔ دہلی حکومت کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے لیکن میڈیا رپورٹ میں کہیں اس اعلان کا ذکر نہیں ہے کہ پانچ ہزار روپے دینے کا عمل کیا ہے؟ یہ کب شروع ہوگا۔ تعمیراتی شعبہ کے مزدروں تک یہ اطلاع کیسے پہنچے گی اور کہیں گتہ دار یہ پیسہ اپنے پاس تو نہیں رکھ لیں گے؟

چیف منسٹر اروند کجریوال مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی پر کورونا وائرس سے گہرا اثر مرتب ہوا ہے۔ ہفتہ کو انہوں نے کہا تھا کہ دہلی میں 72 لاکھ لوگ راشن شاپس سے اناج لیتے ہیں آئندہ ماہ انہیں 50 فیصد زیادہ اناج مفت دیا جائے گا۔ یہی نہیں کجریوال حکومت نے ساڑھے آٹھ لاکھ ضعیف بیواوں اور معذورین، پنشنروں کو دیئے جانے والے وظیفہ کی رقم دگنی کردی ہے۔ دہلی میں چالیس گھنٹوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا ایک بھی کیس نہیں آیا ہے۔ دہلی کی حکومت نے 5 ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی ہے اور کہا ہے کہ اگر کورونا وائرس کا تیسرا مرحلہ آیا تو اس کے لئے کیا قدم اٹھائے جائیں اس کے بارے میں رپورٹ تیار کرکے پیش کریں۔ اترپردیش حکومت نے بھی 35 لاکھ سے زیادہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور تعمیراتی شعبہ کے مزدوروں کو ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسے بے شک اچھا فیصلہ کہا جاسکتا ہے۔ اسے فوراً مزدوروں کے حوالے کیا جانا چاہئے تاکہ ان کا بھروسہ قائم رہے۔ پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ اطلاع مزدوروں تک پہنچ گئی ہے؟ وہ کیسے اس اسکیم سے استفادہ کریں گے؟ سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ حکومت سے ان اسکیمات کے طریقہ کار سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہوئے مزدوروں تک پہنچا دیں۔ جھارکھنڈ میں تین سو پچاس ’’دال بھات سنٹرس‘‘ بنائے گئے ہیں جو 24 گھنٹے چلیں گے، اس وقت معاشی شعبہ پر بھی لوگوں کو سنبھالنا ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور گاؤں میں بے زمین مزدور بھیانک صورتحال سے گذر رہے ہیں۔ کئی ریاستوں نے رقم اور کھانے کے لئے اشیائے مائحتاج کا اعلان تو کیا لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ غریب لوگوں کی جیب میں وہ پیسہ کب اور کیسے پہنچے گا؟ اس کا طریقہ عمل کیا ہوگا؟

برطانیہ نے 30,000، جرمنی نے 10,000 وینٹی لیٹرس کا آرڈر دیا۔ ہندوستان میں وینٹی لیٹرس کی کیا تیاری ہے۔
آپ انٹرنیٹ پر سیدھا سادھا وینٹی لیٹرس ٹائپ کیجئے۔ کئی یوروپی ممالک وینٹی لیٹرس بنانے والی کمپنیوں کو آرڈر کررہے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے علاج میں وینٹی لیٹرس کا بہت اہم کردار ہے۔ جب سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے تب وینٹی لیٹر کا ہی سہارا ہوتا ہے۔ پوری دنیا اس وقت وینٹی لیٹر کے انتظام میں مصروف ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر وینٹی لیٹر ٹائپ کیجئے یوروپی ممالک وینٹی لیٹر کے لئے آرڈرس دے رہے ہیں۔ نئی کمپنیوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ وینٹی لیٹرس بنائیں۔ اس کے لئے فوری بننے والے نئے ماڈل کے لئے بھی بات ہو رہی ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے وہاں کئی انجینئرنگ کمپنیوں سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ ان سے پوچھا ہے کہ کیا دو ہفتے میں 15 سے 20 ہزار وینٹی لیٹرس کا انتظام ہوسکتا ہے؟ میڈیا میں مختلف اعداد و شمار ہیں، برطانیہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ آئندہ ماہ تک تیس ہزار وینٹی لیٹرس کا انتظام کرلینے کا ہدف مقرر کررکھا گیا ہے۔ کمپنیوں کے پاس اس وقت وینٹی لیٹر بنانے کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ یوروپ کے دیگر ملک بھی وینٹی لیٹر بنانے کا آرڈر دے رہے ہیں اور ان تمام ملکوں کو وینٹی لیٹرس فوری چاہئے۔ دنیا میں بنیادی طور پر وینٹی لیٹرس بنانے والی چار پانچ بڑی کمپنیاں ہیں مگر ان کے پاس اتنے آرڈر آگئے ہیں کہ اس وقت کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں برطانیہ کی بڑی انجینئرنگ کمپنی اسمتھ نے بڑا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کمپنی وینٹی لیٹر کے اپنے پیٹنٹ ماڈل کو دوسری کمپنیوں کے ساتھ شیر کرنے تیار ہوگئی ہے تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ وینٹی لیٹرس کی پیداوار ہوسکے۔ مشکل کے اس وقت میں سخت مسابقت کرنے والی کمپنیاں اتنی بڑی قربانی دے رہی ہیں وہ اپنے پراڈکٹ سے دستبردار ہو رہی ہیں۔ اسمتھ کا ہدف ہیکہ اندرون دو ہفتے پانچ ہزار وینٹی لیٹرس تیار کرکے فراہم کردیئے جائیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے نشینل ہیلتھ سرویس کے پاس صرف 5 ہزار وینٹی لیٹرس ہی ہیں۔ برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سرویس کو دنیا کے بہترین طبی سہولتوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف جرمن نے دس ہزار وینٹی لیٹرس کا آرڈر دیاہے۔ اٹلی نے پانچ ہزار وینٹی لیٹر کا آرڈر دیا ہے۔ اٹلی اور جرمنی آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی تعداد دوگنی کررہے ہیں۔ ہیملٹن نام کی کمپنی سال میں 15 ہزار وینٹی لیٹر بناتی ہے۔ اب اس نے اپنی پیداوار 30 سے 40 فیصد بڑھادی ہے پھر بھی ان کمپنیوں کے لئے ان آرڈرس کو پورا کرنا ممکن نہیں۔ اسی لئے میں بار بار اس بات پر زور دے رہاہوں کہ کورونا سے لڑنے کے لئے سیاسی قائدین کے خطاب کی ستائش کی اتنی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی کام آتا ہے لیکن اس کو اہم نہیں مان لینا چاہئے۔ آپ ان کے خطاب میں یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ طبی تیاریاں کیا ہیں۔ ہندوستان میں کتنے بستر تیار ہوگئے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر کتنے دنوں میں اور کتنے بیڈس بنائے جاسکتے ہیں۔ ہندوستان بھر میں کتنے وینٹی لیٹرس ہیں۔ ہندوستان نے مزید وینٹی لیٹرس حاصل کرنے کے لئے کیا کیا ہے؟ یہی نہیں آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ کورونا وائرس سے متاثر مریض کے قریب جانے والے ہیلتھ ورکر چاندی کے رنگ کے سوٹ زیب تن کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسے سوٹ ہمارے ملک میں کتنے دستیاب ہیں۔ دہلی میں کتنے ہیں اور بنگال سے لیکر بہار میں کتنے ہیں۔ ہندوستان کی ریاستی حکومتیں عام لوگوں کو معاشی محاذ پر مدد کے لئے کئی اچھے اعلانات کرچکی ہیں لیکن صحت کے محاذ پر جو اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں وہ بہت تیقن دینے والے نہیں ہیں۔ اترپردیش کی آبادی 20 کروڑ ہے وہاں دوہزار سے کم بستر کیوں تیار ہیں۔ دہلی میں کتنے وینٹی لیٹرس ہیں۔ خانگی اور سرکاری اسپتالوں میں ان تمام کا ڈیٹا بینک تیار کیوں نہیں ہے۔ آس پاس کے اضلاع سے کتنے وینٹی لیٹرس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ اضلاع میں یہ کیوں دستیاب نہیں ہیں؟ اضلاع کے وینٹی لیٹرس کی حالت کیا ہے۔ اس وقت یہ سبھی سوال زیادہ اہم ہیں۔ ہندوستان میں ابھی تک بہت کم سمپل ٹسٹ ہو رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے پاس ٹسٹ کٹس کم ہیں اور 30 جنوری کو پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد بھی ابھی بھی ہندوستان ان 3000 سمپل ٹسٹ کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ جب میں یہ بات کہتا ہوں تو کچھ لوگوں کا سوال آتا ہے کہ جنوبی کوریا کی آبادی دیکھئے۔ اس کا تعلق آبادی سے نہیں ہے جنوبی کوریا نے فروری سے ہی ٹسٹ کٹس بنانے شروع کردیئے تھے۔ اس کے لئے خانگی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری شروع ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا ایک دن میں 20 ہزار سمپل ٹسٹ کررہا ہے۔ تمام اچھی طرح مانتے ہیں کہ اس کا ایک ہی حل ہے ٹسٹ کرو اور پتہ چلاو کہ کون متاثر ہے اور اسے الگ کرو۔ گھر میں بند رہنے کا شعور لوگوں میں پیدا ہوچکا ہے اور بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہماری طبی تیاری کتنی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ کیا آپ نہیں جاننا چاہیں گے؟ آپ یہ سوال پوچھیں کہ کتنے وینٹی لیٹر ہیں کتنے بستر ہیں اور کتنے ٹسٹ کٹس ہیں۔ یاد رکھیئے گا ہم سب حیات و موت کی ایک کشتی پر سوار ہیں۔