ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے گاندھی جی کی زندگی اور موت

   

وینکٹ پارسا
بابائے قوم مہاتما گاندھی کا 30 جنوری کو یوم شہادت ہے۔ اس روز ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے نے اُن کے جسم میں بے شمار گولیاں اُتار دی تھیں اور وہ ’’ہے رام‘‘ کہتے ہوئے زمین پر ڈھیر گئے تھے۔ باپو کا یوم شہادت جاریہ سال اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ سارا ملک ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کی خوشیاں امرت مہااتسو کے طور پر منا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی نے بہبودی ریاست یا Welfare State کا نظریہ پھیلایا اور انہوں نے زندگی پھر ہندوستان کو قومی اتحاد و سالمیت قومی یکجہتی، جمہوریت، سکیولرازم اور سوشلزم پر چلنے اور مضبوط و مستحکم بنانے پر زور دیا، وہ چاہتے تھے کہ ملک میں رام راجیہ کے ذریعہ اتحاد و سالمیت، جمہوریت و سکیولرازم کو مضبوط کیا جائے اور انگریزوں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی جس پالیسی پر عمل کرکے ہندوستانیوں کو غلام بنائے رکھا۔ اس پالیسی کو ہمیشہ کیلئے دفن کرکے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے۔ گاندھی جی کی رہنمائی و قیادت میں ہندوستان نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کے شکنجہ سے آزادی حاصل کی بلکہ قوم پرستی کی تین اہم علامتیں بھی حاصل کی۔ ایک قومی ترانہ، دوسرا ہمارا قومی دستور اور تیسرے ہمارا قومی پرچم۔ مہاتما گاندھی نے ہندوستان اور ہندوستانیوں کو وہ سب کچھ دینے کی کوشش کی جس میں ملک اور ساری قوم کی بھلائی ہو۔ مثال کے طور پر رام راجیہ، ہندو۔ مسلم اتحاد، سکیولرازم اور جمہوریت، کسی بھی ملک کیلئے یہ تمام عناصر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مہاتما گاندھی ملک میں ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے ہی زندہ رہے اور ہندو۔مسلم اتحاد کیلئے ہی اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ 1917ء کے دوران چمپارن میں عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے ساتھ اپنے تجربہ کے فوری بعد گاندھی جی 1919ء میں تحریک خلافت کے ذریعہ جدوجہد آزادی میں کودپڑے جس کا مقصد صرف اور صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنا تھا کیونکہ گاندھی جی کا یہ کامل یقین تھا کہ تحریک آزادی کیلئے یہ اتحاد بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندگی بھر ملک کی آزادی اس کے استحکام، امن و امان، ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے جدوجہد کرنے والے گاندھی جی کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 3 دہے بعد 30 جنوری 1948ء کو ایک دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن کر زمین پر ڈھیر ہوگئے۔ اس دہشت گرد کی گولیوں نے مہاتما گاندھی کو ’امر‘ کردیا اور ملک میں ہندو۔ مسلم اتحاد کا مثالی نمونہ بنادیا۔ گاندھی جی کی زندگی ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے وقف ہوچکی تھی اور اُسی وجہ سے انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کا قتل دراصل ملک کی آزادی کی جدوجہد میں عدم تشدد اور ہندو ۔ مسلم اتحاد کے ذریعہ آگے بڑھنے کی سزا تھی۔ آپ کو بتادیں کہ ہماری قوم پرستی کی تینوں علامتوں کا انتخاب گاندھی جی سے ہی عزم و حوصلہ پاکر پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا، گاندھی جی کی ایماء پر ہی پنڈت جواہر لال نہرو نے قومی ترانہ، دستور ہند اور قومی پرچم کا انتخاب عمل میں لایا۔ ’’جنا گنا منا‘‘ کی قومی ترانہ کی حیثیت سے شناخت کی گئی جبکہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ کو قومی نغمہ قرار دیا گیا، جہاں تک کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی (AICC) کا اجلاس کا سوال ہے ، وہ ہمیشہ ’’وندے ماترم‘‘، ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سے شروع ہوتا اور جنا گنا پرختم ہوتا۔
گاندھی جی کے اصرار اور وسیع تر قومی مصالحت کے ایک حصہ کے طور پر آزادی کے فوری بعد پنڈت جواہر لال نہرو نے جو دستور ہند کی تیاری میں مصروف تھے۔ دستور کی مسودہ کمیٹی کا صدرنشین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو بنانے سے اتفاق کیا۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو ہی تھے جنہوں نے قانون ساز اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے دستور کے اغراض و مقاصد پیش کئے اور وہ ایسے اغراض و مقاصد تھے جنہوں نے دستور ہند کو جمہوری سکیولر اور سماجی سمت عطا کیں۔ بعد میں پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر امبیڈکر اور شیاما پرساد مکرجی کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا۔ پنڈت جی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے نہیں ہے، دونوں کو ہی مرکزی کابینہ میں شامل کرکے سب کو حیران کردیا۔ ان کا اقدام دراصل وسیع تر قومی مصالحت کا ایک حصہ تھا۔ اس طرح کانگریس کا موجودہ قومی ترنگا دراصل یکم اپریل 1921ء کو (موجودہ) آندھرا پردیش کے وجئے واڑہ میں ڈیزائن کرکے پیش کیا گیا۔ گاندھی جی نے اس قومی ترنگے میں چند تبدیلیوں کا مشورہ دیا اور پھر اسی پرچم کی بعض تبدیلیوں کے ساتھ 1931ء میں کانگریس نے توثیق کردی اور 22 جولائی 1947ء کو قومی اسمبلی میں قومی پرچم منظور کرتے ہوئے اس کی توثیق بھی کردی گئی۔ مسلم اتحاد کو ہی ملک اور شہریوں کی سماجی و سیاسی اور تہذیبی ترقی کا اصل ذریعہ قرار دیتے تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے مغل بادشاہ اکبر اعظم کو بابائے ہندوستانی قوم پرستی قرار دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اکبر اعظم وہ پہلی شخصیت تھی جنہوں نے ہندوستانی قوم پرستی کی بنیاد کے طور پر ہندو ۔ مسلم اتحاد کو تسلیم کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی جدوجہد آزادی کامیاب نہیں ہوسکتی چنانچہ گاندھی جی نے علیگڑھ تحریک کے قائدین، مسلم لیگی رہنماؤں اور تحریک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ شخصیتوں سے جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنانے کی اپیل کی۔ اس طرح گاندھی جی کی کوششوں کے نتیجہ میں مسلمان بڑے پیمانے پر تحریک آزاد سے جڑنے لگے جو ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کیلئے پریشانیوں کا باعث بن گیا اور پھر ملک میں انگریزوں کے زوال کا آغاز ہوا۔ ہمارے ملک میں سکیولر نظریات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ اشوکا اور اکبر کے زمانے سے سکیولر روایات پائی جاتی ہیں۔ مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کی ایسی مثال قائم کی جو کوئی اور قائم نہیں کرسکتا جودھا بائی کو ان کا مذہب تبدیل کروائے بناء ملکہ ٔ ہند بنا دیا جبکہ اکبر کے وزیراعظم کوئی مسلمان نہیں بلکہ راجہ مان سنگھ تھے۔ گاندھی جی نے کانگریس کو ایک ایسے ہندوستانی نظام حکمرانی کی جانب مائل کیا جو ہندوستان کی عظیم متنوع تہذیب و تمدن کیلئے موزوں ہے۔ گاندھی جی نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ جمہوریت کے ذریعہ ہی گرام پنچایت کے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ پنڈت جواہر لال نہرو نے جمہوریت کو ہندوستان کی جڑوں تک پہنچایا یعنی گرام پنچایت کی سطح پر لے کر گئے اور پنچایت راج کا سلسلہ شروع کیا اور 2 اکتوبر 1954ء کو راجستھان کے ناگور میں نہرو نے پنچایت راج نظام کی بنیاد رکھی جسے 1989ء میں راجیو گاندھی نے دستوری ترمیمات 63 اور 64 کرتے ہوئے مستحکم کیا۔ حال ہی میں سونیا گاندھی نے بھی یہی اعلان کیا کہ کوئی بھی قوم ، سماجی ہم آہنگی اور ایثار و خلوص کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں تعصب، جانبداری، توہم پرستی، نسل پرستی، فسطائیت ، ناانصافی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہرحال آج بھی گاندھی جی کی تعلیمات خاص طور پر امتیاز ، جانبداری اور فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں ضروری ہیں۔