ہندو کی شادی میں مسلمان بنے فیملی

,

   

دہلی تشدد کے متاثرین کے لئے پڑوسی رشتہ دار بن کرکھڑے ہوگئے۔

نئی دہلی۔شادی کا لباس زیب تن کئے ہاتھوں سے مہندی کارنگ پھیکا پڑا گیا اور ہلدی بھی اتر گئی تھی‘ 23سالہ ساوتری پرساد نے کہاکہ وہ گھر میں روتی بیٹھ گئی تھی کیونکہ منگل کے روز اس کے گھر کے باہر پرتشدد ہجوم کے درمیان میں لڑائی ہورہی تھی‘ اسی روز ساوتری کی شادی بھی مقرر تھی۔

اسی ہفتہ راجدھانی کے مختلف حصوں میں ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان میں فساد برپاہوا تھا‘ اس جوان لڑکی کی فیملی مسلم اکثریت والے علاقے میں مقیم ہیں انہیں شادی کو ملتوی کرنے پر مجبور کیاجارہاتھا۔

مگر ساوتری کے والد جنھوں نے پھر اسی روز شادی کااہتمام کیا کہا کہ ان کے مسلم پڑوسی ہی رشتہ دار ہیں اور ان کی موجودگی مذکورہ والد کے لئے تسلی بخش رہی ہے۔

تقریب کے روز گھر آنے والے رائٹرس کی ٹیم کو ساوتری نے بتایا کہ ”میرے مسلمان بھائیوں نے آج مجھے بچایا ہے“ اور وہ پھر ایک مرتبہ یہ کہتے ہوئے روپڑی کی ان کی فیملی اور پڑوسیوں نے اس کو تسلی دی ہے۔

ضلع چاند باغ کے تین گلیوں میں اینٹوں سے بنے ایک چھوٹے سے مکان ساوتری کے گھر میں شادی کی تقریب انجام پائی۔

اس سے کچھ فاصلے پر ہی سڑک جنگ کا میدان دیکھائی دے رہی تھی۔

ساوتری کے والد بھوڈے پرساد نے پیر او رمنگل کا منظر سناتے ہوئے کہاکہ ”ہم چھت پر گئے اور دیکھا کہ دھواں اور بہت زیادہ دھواں اٹھ رہا ہے۔ وہ کافی ہولناک تھا‘ ہم صرف امن چاہتے ہیں“۔

بھوڈے نے کہاکہ ہم یہاں پر کئی سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ بغیر کسی تکلیف کے رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ”ہم نہیں جانتے کہ فساد کے پس پردہ کون لوگ ہیں‘ مگر وہ ہمارے پڑوسی نہیں تھے۔

یہاں پر ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان میں کوئی دشمنی نہیں ہے“۔ چہارشنبہ کے روز تشدد میں کمی رہی مگر دوکانیں بند رہیں اور لوگ گھروں سے باہر نکلنا پسند نہیں کیا‘ انہیں مزید تشدد کا خوف لاحق تھا۔

ساوتری کے والد نے کہاکہ انہوں مختصر تقریب کے اہتمام کا فیصلہ کیاتھا۔ساوتری کی رشتہ کی بہن پوجا نے کہاکہ ”ہندو ہویا مسلمان‘ ہم تمام انسان ہیں اور ہم سارے تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ مذہب کے لئے ہونے والی لڑائی نہیں ہے‘ مگر اس کو ایسا بنادیاگیاہے“۔

دولہا کی آمد کے موقع پر مسلم پڑوسی اکٹھا ہوئے اور شادی کی رسومات انجام دئے گئے۔گھر کے باہر دیگر لوگوں کے ساتھ پہرے پر کھڑے ہونے والے عامر ملک نے کہاکہ ”ہم اپنے ہندوؤں بھائیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہے رہے ہیں۔

ہم ان کے لئے سب کچھ ہیں اور ایسے ہی رہیں۔ ہم یہاں پر کھڑے ہیں“۔پھولوں کے ہاروں کے تبادلہ کے بعد ساوتری اور ان کے شوہر اور گھر والے پڑوسیو ں او ر گھر والوں کی نگرانی میں گلی کے باہر تک لے جائے گئے۔

بھوڈے نے کہاکہ ”آج میرے کسی رشتہ دار نے شادی کی تقریب میں شرکت نہیں ہے‘ مگر میرے مسلم پڑوسی یہاں پر ہیں۔ وہی ہماری فیملی ہیں“۔