حیدرآباد۔ اسلام میں خواتین پر مبینہ ظلم صحافیوں اورسیاسی قائدین کا پسندیدہ موضوع ہے۔ وہ صرف یہ پسند کرتے ہیں کہ دنیا یہ مانے کے لئے پردہ دار عورتیں کتنی مظلوم ہیں۔
حجاب پر تنقیدیں کرنے والوں کی صف میں ایک نیا نام مالینی پارتھا سارتھی کا بھی شامل ہوگیا ہے جو ہندو گروپ کی ناشرکمپنی کی چیرپرسن ہیں۔
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہاکہ وہ اقلیتوں کے تمام حقوق کے لئے ہیں جودئے جارہے ہیں مگر محسوس کرتی ہیں کہ حجاب”خواتین کے لئے محکومی کی ایک علامت ہے۔اسے ذاتی آزاد ی کی ایک مثال تو نہیں کیاجاسکتا جس کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے“۔
محترمہ پارتھا سارتھی جنھوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے کچھ روز قبل ملاقات کی او ران کی قیادت کی ستائش کی تھی نے آج حجاب کو خواتین کی محکمومیت کی ایک نشانی قراردیا ہے اور مسلمانوں سے کہا ہے کہ ”اس جارحانہ مہم سے خود کودور رکھیں“۔
دی ہندو حال تک بھی ایک سکیولر اوردائیں بازو نظریات کاحامل اخبار کہلایاجاتا تھا۔ اس کی یقینا حال ہی میں پالیسی میں بھی تبدیلی ائی ہے‘ جو کچھ اندرونیوں کے بموجب”ہندو فیملی‘‘ کے داخلی جھگڑوں کایہ نتیجہ ہے۔
بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ متعلقہ پردہ پوش خواتین سے بات چیت کئے بغیر بھی فصاحت اور بلاغت سے بات کی جارہی ہے۔اگر ایک مسلم عورت اپنے لباس میں پرسکون ہے اور کسی کوکوئی نقصان نہیں پہنچارہی ہے تو پریشانی کیوں؟۔
چہرے پر نقاب لگانے سے اتنا ہنگامہ کیوں ہے جبکہ عریاں تصویروں کی اشاعت کے باوجود کوئی اعتراض ہوتا ہے نہ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ ان کے جذبات کیوں نہیں جاگتے۔مسلم عورتوں کے لئے آزادنہ انتخاب کا سوال ہی حجاب کااستعمال نہیں ہے۔
اسلام طرز زندگی میں مسلم خواتین کس قدر خود کومحفوظ اوربااحترام سمجھتے ہیں اس کا حجاب پر تنقید کرنے والوں کوئی اندازہ نہیں ہے۔
محض ایک عورت کے برقعہ پہن لینے کا مطلب یہ نہیں ہے وہ محکوم ہوگئی ہے۔ اسکے برعکس زیرحجاب کئی خواتین بااختیار‘ پڑھی لکھی‘ ہوشیار اور خود مختار ڈھونڈنے پر ملیں گے۔ میڈیا اور مغربی نظریات نے خواتین سے متعلق اسلامی اقدار پر بحث کھوچکے ہیں۔
وہ مسلم خواتین کونقاب جیسی اسلامی اقدار کو مسترد کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
حیران کردینے والی بات تو یہ ہے کہ پارتھا سارتھی کا پوسٹ تسلیمہ نسرین کے ساتھ ٹیگ کیاگیا ہے یہ وہ بنگلہ دیشی مصنفہ ہے جس کو اپنے آبائی ملک میں آبادی کی اکثریت کے جذبات کومبینہ ٹھیس پہنچانے والے تبصرے کی وجہہ سے بنگلہ دیش چھوڑ کو ہندوستان میں پناہ لینے کی ضرورت پڑی ہے۔ تسلیمہ نے بڑے پیمانے پر دائیں بازووالوں کی چھتری میں محفوظ زمین تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔