ہو ہمارے خون سے ہی سہی ‘ سچ لکھا جائے گا

   

سید اسماعیل ذبیح اللہ
جواہرلال نہرو یونیورسٹی( جے این یو) کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر اور پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر عمر خالد کو دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میںاسی سال فبروری میںپیش ائے فسادات کے سازشی کے طور پر گرفتار کرلیاہے۔ دہلی پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے عمر خالد کو چار دن قبل گرفتار کیاہے ۔ مگر اس سے قبل بھی عمر خالد کو جے این یو میں ملک کے خلاف نعرے لگانے کے الزام میں ملک سے غداری( سیڈیشن) کا معاملہ درج کرتے ہوئے گرفتار کیاتھا۔مگر بعد میںانہیںضمانت پر رہا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر عمر خالد کو گرفتار کرنے کی کئی دنوں سے سازش چل رہی تھی۔عمر خالد نے اپنی گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر ایس ائی ٹی دفتر پوچھ تاچھ کے لئے حاضر ہونے سے قبل ڈھائی منٹ کے قریب کا ایک ویڈیوتیار کیاتھا جس میںانہوں نے واضح طور پر اپنی گرفتار ی کاخدشہ ظاہر کرتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ ’’ پولیس کے ذریعہ حکومت سی اے اے‘ این آرسی کے خلاف منظم احتجاج کرنے والوں کو ہراساں وپریشان کررہی ہے۔ من گھڑت اور بے بنیادالزامات کے تحت گرفتاریاں عمل میںلائی جارہی ہیں۔ ان گرفتاریوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ پوچھ تاچھ کے لئے مجھے بلایاجارہا ہے میںضرور جائوں گا اور مجھے یقین ہے کہ پولیس گرفتار بھی کرلے گی مگر آپ لوگ حق کے لئے آواز اٹھانا بند نہ کریں۔ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہیں۔ حکومت کی منشاء ہے کہ گرفتاریوں کے ذریعہ لوگوں میں خوف او رہراسانی کا ماحول پیدا کیاجائے تاکہ مودی حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھانے سے ڈرے او رگھبرائے‘‘۔آخر کار دہلی پولیس کی ایس ائی ٹی نے عمر خالد کو دہلی 2020فسادات کی سازش کرنے کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیاہے۔ ایک وقت تھا جب ٹاڈا اورپوٹا جیسے قوانین کا اس وقت کی حکومتیں اپنے سیاسی دشمنوں کو دبانے کے لئے استعمال کرتے تھے او رآج مرکز میںزیر اقتدار نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت یو اے پی اے کا استعمال کررہی ہے۔ چند روز قبل ہی گورکھپور کے بی آرڈی اسپتال سے برطرف ڈاکٹر کفیل خان کو آلہ اباد ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد اترپردیش حکومت نے قومی سلامتی ایکٹ ہٹاکر جیل سے رہا کیاہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کا بھی قصور اتنا ہی تھا کہ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںطلبہ سے خطاب کرتے ہوئے متحد رہنے ‘ ملک کی سلامتی کے لئے کام کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے ‘ فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بننے کی ترغیب دیتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون( سی اے اے) کی کھل کر مخالفت کرنے کا استفسار کیاتھا ۔ عمر خالد کی گرفتاری کے اگلے روز گجرات کے وڈگام اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ پچھلے چار سالوں سے عمر کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔سال2014کے فوری بعد جس سازش کو تیار کیاگیا تھا اس کو اب انجام تک پہنچایاجارہا ہے۔فرضی موضوعات اور بناوٹی حوالے تیار کئے گئے اور اس کو رات دن ٹیلی ویثرن چیانلوں پر چلادیاگیا۔لیکن سب یاد رکھا جائے گا ‘ یہ ہمارا بھی وعدہ ہے‘‘۔ڈاکٹر عمر خالد کی گرفتاری کے بعد سیول لبرٹیز کے درجنوں قائدیناورکارکنوں نے خالد کی گرفتاری کی کھل کرمخالفت کی اور کہاکہ ’’ عمر خالد ائین کے حق میںبولنے والی آواز ہے جس کو گرفتاری کے ذریعہ نہیںدبا جاسکتا ہے۔ عمر خالد نے ہمیشہ ملک کی سلامتی ‘ وقار‘ اور ہم آہنگی کو فروغ دینے والا کام کیاہے۔

جمہوریت کے دائرے میںرہ کر مظلوموں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے طور پرعمر خالد کوپہنچانا جاتا ہے‘‘۔بے شمارلوگوں نے عمر خالد کی گرفتاری کے خلاف مورچہ سنبھالا اور صدائے احتجاج کوبلند کیاہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ حیدرآباد میںعمر خالد کی گرفتاری کے خلاف اب تک نہ تو ایک آواز اٹھی ہے اور نہ ہی کسی پریس کانفرنس کے ذریعہ جھوٹے مقدمات کے تحت خالد کی گرفتاری پر کوئی مذمت کی گئی ہے۔ اسی سال23فبروری کو شمال مشرقی دہلی میںہونے والے فسادات میں53لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے جس میںزیادہ تر مسلمان تھے۔ کاروبار لوٹ لئے گئے ‘ دوکانیںجلادی گئیں‘ گھر وں میںگھس کر لوٹ مار کی گئی‘ عورتوں او رلڑکیوں کی عصمتوں سے کھلواڑ کیاگیا۔ اگر مسلمانوں کا غلبہ کے مقصد سے فسادات کی سازش کی جاتی تو کیامسلمانوں کااس قدر جانی او رمالی نقصان ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ تو دہلی پولیس دی سکتی ہے او رنہ ہی ایس ائی ٹی جوان فسادات کی جانچ کررہی ہے۔ایس ائی ٹی نے اپنی ضمنی چارج شیٹ میں پنجرہ توڑتنظیم کے دوکارکنان دیونگنا کلیتا اور نتاشا نروال کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اسٹوڈنٹ گل افشاں کے نام بطور ملزم شامل کئے ہیں۔ مئی کے مہینے میں نتاشا اور نروال کی گرفتاری عمل میںائی تھی جبکہ گل افشاں کوجولائی کے مہینے میںگرفتار کیاگیاہے ‘ ان تینوں کارکنوں پر یواے پی اے کے تحت مقدمہ چلایاجارہا ہے ۔ شمال مشرقی دہلی فسادات کی ایف ائی آر نمبر50/20کے ضمن میں پولیس کی جانب سے دائر کردہ ضمنی چارج شیٹ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا( مارکسٹ) سیتا رام یچوری‘دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپورا آنند‘ سوارج ابھیان کے قومی صدر یوگیندر یادو کے علاوہ جیتی گھوش اور راہل رائے کے ناموں کو بھی بطور ملزم شامل کیاہے۔ شمال مشرقی دہلی میںپیش ائے فرقہ وارانہ فسادات کی ساری جانچ کا رخ ہی موڑ دیاگیاہے ۔ حالانکہ مذکورہ ایف ائی آر نمبر50/20کا جو معاملہ ہے وہ دہلی فسادات کے دوران امان نامی 17سالہ نوجوان کو گولی لگنے کے معاملے سے جڑا ہے مگر پولیس کی جانچ سے ایسا لگ رہا ہے کہ سارے معاملے کو الگ رنگ دے کر امان کی موت کا ذمہ دار مظاہرین کوٹہرائے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

حالانکہ جعفر آباد میٹرو اسٹیشن کے پاس سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے لوگوں کے متعلق بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے 23فبروری2020کے روز دہلی پولیس کو تین دن کا انتباہ دیتے ہوئے فوٹیج دہلی پولیس کے پاس موجود ہے۔مگر اس سمت پولیس کی پیش رفت آج تک نہیںہوئی ہے اور اگرکاروائی ہورہی ہے تو صرف نریندر مودی حکومت کے خلاف بیان بازی کرنے والوں‘ سی اے اے‘ این آرسی اور این پی آر کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ پولیس کی یکطرفہ کاروائی سے یقینا جمہوری نظام پر یقین رکھنے والوں کو بھروسہ ختم ہوجائے گا۔ بہت سارے معاملات ایسے ہیں جس میںگرفتاری کے بعد عدالت کاروائی کے دوران جنھیں پولیس نے ملزم قراردیاتھا انہیںباعزت بری کردیاگیاہے۔ شمال مشرقی دہلی فسادات کی جانچ کررہی دہلی پولیس کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کو یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ جمہوریت کے دائرے میںرکھ کراحتجاج کرنے والوں کو اپنے آقائو ں کی خوشنودی اور منشاء پر فرضی مقدمات میںماخوذ کرتے ہوئے ان کی زندگیاں خراب کرنے کا کوئی حق نہیںہے بالخصوص اس وقت جب جن لوگوں کو گرفتار کیاگیاہے وہ طالب علم ہیں‘ یا پھر درس وتدریس کے پیشے سے جڑے ہیںیا پھر دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت مانے جانے والے ہندوستان کے ائین کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر اترے ہیں۔
تم سیاحیوں سے جھوٹ لکھو گے ہمیںمعلوم ہے
ہو ہمارے خون سے ہی سہی ‘ سچ لکھا جائے گا