ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح

,

   

ٹرین میں دہشت گردی … مودی ۔امیت شاہ خاموش
ہریانہ فسادات … آگ کب بجھے گی

رشیدالدین
محافظ اگر قاتل بن جائے تو پھر بھروسہ کس پہ کریں گے ۔ جئے پور ۔ممبئی ٹرین میں ریلوے پروٹیکشن فورس کے جس سپاہی کو مسافرین کی حفاظت کیلئے تعینات کیا گیا تھا ، اس نے دہشت گرد کارروائی انجام دیتے ہوئے 4 بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جئے پور سے ٹرین جب ممبئی کے لئے چلی تو کوچ میں سوار مسافرین نے ریلوے پروٹیکشن فورس کے سپاہیوں کو دیکھ کر اطمینان کی سانس لی۔ مسافرین کو یقین تھا کہ اب ان کے کوچ میں کوئی غیر قانونی حرکت نہیں ہوگی اور کوچ محفوظ رہے گا۔ اسی امید کے ساتھ وہ اطمینان کی نیند سو گئے۔ ظاہر ہے کہ جب ہتھیاروں سے لیس محافظ موجود ہوں تو پھر فکر کی کیا ضرورت ہوگی۔ ٹرین رات کے سناٹے میں ممبئی کی سمت رواں دواں تھی۔ مسافرین صبح 5 بجے سے بیدار ہونے لگے اور ہر کسی کو آئندہ اسٹیشن کا انتظار تھا تاکہ چائے ٹفن کرلیں۔ کئی مسافرین ابھی نیند میں تھے کہ اچانک گولیاں چلنے لگیں۔ فائرنگ کی آواز سے افراتفری مچ گئی۔ مسافرین نے سوچا کہ شائد ٹرین پر حملہ ہوا ہے لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ کانسٹبل چیتن سنگھ نے اپنے سینئر عہدیدار اسسٹنٹ سب انسپکٹر تکارام مینا کو گولی مار کر ڈھیر کردیا۔ دونوں کے درمیان ملک کے حالات کو لے کر بحث و تکرار کی اطلاع ہے اور منی پور کے واقعات پر بھی تبصرہ ہوا ۔ یکایک چیتن سنگھ نے تکارام مینا پر گولیاں داغ دیں اور زندگی سے ریٹائر کردیا جبکہ تکارام چھ ماہ بعد ملازمت سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ اپنے سینئر کو مارنے کے بعد چیتن پر خون سوار ہوگیا اور وہ کوچ میں آگے بڑھنے لگا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔ اس نے تین مسلمانوں کا ان کے لباس اور حلیہ سے انتخاب کرتے ہوئے نام پوچھ کر ان کی جگہ سے ہٹایا اور پھر تینوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ ایک زخمی تڑپتا رہا لیکن چیتن سنگھ کے سر پر خون سوار تھا ۔ کوچ میں اس قدر افرا تفری مچ گئی کہ کوئی بھی چیتن سنگھ کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں جٹا رہا تھا ۔ چیتن سنگھ نے جو حملہ کیا وہ ملک میں مسلمانوں سے نفرت کے ماحول کے عروج کو ظاہر کرتا ہے ۔ چیتن سنگھ نے کہا کہ دیش میں رہنا ہو تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا ۔ یہ جملے چیتن سنگھ کی زبان پر تھے لیکن یہ کسی نے اس کے ذہن میں بٹھائے تھے۔ نفرت اور تعصب کی ملک بھر میں جاری مہم کا یہ سپاہی شکار ہوگیا۔ جس انداز میں اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا، محسوس ہورہا تھا کہ وردی کے بھیس میں ہندو دہشت گرد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ منی پور اور دیگر مسائل پر بحث کے دوران تکارام مینا نے مودی اور یوگی کو برا بھلا کہا ہوگا جس پر چیتن سنگھ نے کام تمام کردیا۔ جو شخص مودی اور یوگی کے بارے میں ایک لفظ سننے تیار نہ ہو ، وہ ہندو جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا کس حد تک تربیت یافتہ آلہ کار ہوگا ، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ مودی اور یوگی کے اس بھکت نے تین بے قصور مسلمانوں پر گولیاں چلاتے ہوئے دل کی تسکین کا سامان کیا ہے ۔ چیتن سنگھ کے مودی ۔یوگی بھکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق نفرت کی فیکٹری اترپردیش سے ہے۔ مسلم مسافرین کا آخر کیا قصور تھا۔ انہوں نے تو مودی اور یوگی کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا لیکن 10 برسوں سے مسلمانوں کے خلاف جاری مہم دیش کے غداروں کو گولی مارو… کو ، دیش میں رہنا ہو تو مودی یوگی کہنا ہوگا، جیسے نعروں کے زیر اثر اس جوان نے دراصل اجمل قصاب کا رول ادا کیا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت اور گودی میڈیا واقعہ کو غیر اہم کرنے اور ہندوتوا دہشت گرد کو بچانے میں مصروف ہیں۔ گودی میڈیا کے چیانلس نے ملک کو شرمسار کرنے والے اس واقعہ پر کوئی پرائم ٹائم ڈسکشن نہیں رکھا۔ عام حادثہ کی طرح اس سانحہ کو نظر انداز کرنے کا واحد مقصد مودی اور یوگی کے امیج کو بچانا ہے ۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اس واقعہ کے لئے مودی اور یوگی ذمہ دار ہیں بلکہ ملک بھر میں مودی اور یوگی کے بھکتوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا جو ماحول پیدا کیا ہے، اس کے زیر اثر محافظ خود قاتل بن گیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس واقعہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وزیر ریلویز اشونی ویشنو نے واقعہ کے بارے میں ٹوئیٹ تک نہیں کیا۔ اگرچہ یہ واقعہ وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے لیکن مجرم کا تعلق ریلوے پروٹیکشن فورس سے ہے ، لہذا وزیر ریلویز کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ واقعہ کی مذمت کرتے۔ ملک میں جب بھی ہندو دہشت گرد کارروائی ہوتی ہے تو مجرم کا دماغی توازن خراب دکھایا جاتا ہے تاکہ سزا سے بچ سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دماغی توازن ٹھیک نہ تھا تو ملازمت کیوں دی گئی ؟ ایسے شخص کے ہاتھ میں خودکار ہتھیار کیوں دیا گیا ۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں جیل سے رہائی پر ہندوتوا طاقتیں اس کا سنمان کریں گی اور عجب نہیں کہ الیکشن میں ٹکٹ دیا جائے۔ اگر چیتن سنگھ کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا تو گودی میڈیا دن رات اسے دہشت گرد ، پاکستانی ایجنٹ ، آئی ایس آئی ، نہ جانے کن کن دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دیتا اور اسے گرفتار نہیں بلکہ گولی ماردی جاتی۔ اس کے گھر والوں ، دوست احباب کے مکانات پر دھاوے ہوتے۔
بی جے پی نے 2024 لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے لئے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری شروع کردی ہے۔ مودی حکومت کے پاس کارکردگی یا کوئی کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ عوام سے تائید کی امید کرے۔ حالیہ عرصہ تک گجرات کے ترقی ماڈل کا ملک بھر میں خوب چرچہ کیا گیا لیکن اب فسادات کا گجرات ماڈل پیش کیا گیا ہے ۔ ہریانہ میں فسادات اور منصوبہ بند طریقہ سے مساجد پر حملے اور مسلمانوں کی ہلاکتیں دراصل گجرات ماڈل کا ریہرسل ہے۔ پولیس کی موجودگی میں ہریانہ کے مسلم علاقوں کو جس طرح گھیر کر نشانہ بنایا گیا ، اس نے گجرات فسادات کی یاد تازہ کردی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے جان و مال کے دشمن نفرتی عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو نقل مقام کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ نہ صرف ہریانہ بلکہ اترپردیش اور آسام میں بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔ منی پور کی آگ ابھی تھمی نہیں تھی کہ توجہ ہٹانے کیلئے ہریانہ کو آگ میں جھونک دیا گیا ۔ منی پور میں مخصوص قبائل کو نشانہ بنانے سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھرمیں ملک کی بدنامی ہوئی ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے منی پور سے توجہ ہٹانے کے لئے اپنے مخصوص اور روایتی انداز کو اختیار کرتے ہوئے ہریانہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ منی پور کی طرح ہریانہ کی صورتحال پر وزیراعظم نریندر مودی کی زبان بند ہے۔ انہوں نے ٹرین میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی مذمت تک نہیں کی۔ مودی اور امیت شاہ کو دلچسپی دیگر مسائل سے ہے۔ وزیراعظم نے بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلم خواتین کے ساتھ رکھشا بندھن منائیں۔ مسلم خواتین سے راکھی بنواکر انہیں بی جے پی سے قریب لانے کی کوشش کی جائے۔امیت شاہ نے مدھیہ پردیش میں کہا کہ اگر ریاست میں دوبارہ بی جے پی کو اقتدار دیا گیا تو آئندہ 50 برسوں تک ملک میں بی جے پی کو اقتدار سے کوئی طاقت نہیں ہٹا پائے گی۔ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے لیکن کسی کو راکھی بندھن کی فکر ہے تو کوئی 50 سال تک اقتدار میں رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں ملک میں نفرت اور تعصب کا اس قدر بدترین ماحول نہیں دیکھا گیا ۔ ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں پر مظالم دراصل مزاحمت نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ مسلمان آخر کب تک ظلم سہتے رہیں گے ۔ جس دن مظلوم ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے اور مزاحمت کی طاقت پالے گا ، اسی دن سے ظلم کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ ممبئی ٹرین کا سانحہ ہو یا پھر ہریانہ کی صورتحال دونوں میں مزاحمت کے ذریعہ حملہ کو روکا جاسکتا تھا ۔ دستور ہند نے ہر شخص کو حفاظت خود اختیاری کی اجازت دی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایک طرف برادران وطن سے تعلقات کو خوشگوار بنائیں تو دوسری طرف حفاظت خود اختیاری کے طریقے اختیار کریں۔ ملک میں برادران وطن کی اکثریت سیکولر اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حامی ہے۔ ان کی مدد سے مٹھی بھر فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ مذہبی اور سیاسی قیادتوں کے فیصلوں کا انتظار کئے بغیر مسلمانوں کو محلہ واری سطح پر اپنے تحفظ کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ حفیظ میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے ؎
داد دیجئے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح