“یوم عاشور میں روزہ رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔”

,

   

ماہ محرم الحرام کی پہچان واقع کربلا سے منسوب ہوکر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو نواسہ رسول حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متبعین اور چاہنے والوں نے اسی دن کو رنج و الم کا دن قرار دے دیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس پورے مہینے کو ماہ ماتم بنا ڈالا اور ہر قسم کی خوشیاں اور خوشیوں کی تقریبات اس مہینے میں اپنے اوپر حرام کر ڈالیں حالانکہ حرام و حلال کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور ایسے ایسے اقدامات و حرکات ایجاد کیے جن کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے جو ان کے رنج وغم کو ظاہر کرسکیں۔

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اس کی دسویں تاریخ کو “یوم عاشورہ” کہتے ہیں اور اس دن کی فضیلت متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اس دن مکے کے قریش بھی روزہ رکھتے تھے اور خانۂ کعبہ پر ہر سال نیا غلاف چڑھاتے تھے اور وہ اس روزے کو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ روزہ رکھیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو یوم عاشورہ (یعنی محرم کی دسویں تاریخ)کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے نزدیک اس دن کی کیا خاص اہمیت ہے کہ تم اس دن روزہ رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہمارے ہاں یہ بڑی عزمت والا دن ہے۔ اسی دن اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نجات بخشی تھی اور فرعون اور اس کے لشکروں کو دریا میں غرق کردیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرنے کے لئے روزہ رکھا تھا۔ پس ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور امت کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری و مسلم) لیکن جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور یہودیوں کی دشمنی دین اسلام کے خلاف کھل کر سامنے آئی تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ”اہل کتاب سے مخالفت کے حکم کے باوجود ہم ان کی اقتدا میں یہ روزہ کیوں رکھیں؟ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگلے سال سے انشاءاللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھا کریں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔”(مسلم)

یوم عاشور کے تعلق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اتنا واضح ہے کہ اس بعد اس دن بدعات وخرافات (کھچڑا بنانا اور شربت پلانا اور اس کے لئے دوسرے مذاہب کی طرح نکڑ پر کھڑے رہنے والے مسلم نوجوانوں چندا جمع کرنا) کا کوئی جواز باقی ہی نہیں رہتا ہے۔ واقعات کربلا کو بیان کرنے کے لئے مسلم محلوں میں دس دنوں کا وعظ رکھا جاتا ہے اور اب تو یہ وعظ بھی کمرشیلائز اور مسلکوں کی نمائندگی کرنے والے ہوکر رہ ہوگئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دس دنوں کے وعظ میں یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ کے حکم کا ذکر تک نہیں کیا جاتا ہے۔ آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان علماء کرام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسی محبت و عقیدت اور عاشقی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ہی نظر انداز کردیتے ہیں. کربلا کی تاریخ اتنی پیچیدہ ہے کہ عام مسلمانوں کا اس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے اس کے لئے تو مکمل سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

 ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہم یوم عاشورہ کے تعلق سے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے ان کی دی ہوئی ہدایت پر عمل پیرا ہوں اور یہودی کی مشابہت نہ ہو اس لئے محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھیں۔

محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی