بی ایس پی کے ایک لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرینکا کے تقرر کے بعد کانگریس کارکنوں کے حوصلہ میں اضافہ ہوا ہے‘ کیونکہ انہیں پارٹی میں کچھ نیا احساس ہورہا ہے ‘ مگربی ایس پی او رایس پی کے اتحاد پر اس کا کوئی بھی’ ’اثر‘‘ نہیں ہوگا ۔
لکھنو۔اترپردیش میں لوک سبھا الیکشن کے لئے کانگریس کو الائنس سے باہر کرنے والے سماج وادی پارٹی ( ایس پی) او ربہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) قائدین نے چہارشنبہ کے روز پرینکا گاندھی کے سرگرم سیاست کاحصہ بننے پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے کہاکہ قدیم پارٹی کے امیدواروں کو اس فیصلے سے جو توقعات ہیں وہ پوری نہیں ہوں گی۔
اس سے صرف وہ بی جے پی کو ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے بہت سارے لیڈران نے کانگریس پارٹی کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیاہے۔
جے ڈی ( یو) کے قومی نائب صدر پرشانت کشور نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ ’’ طویل عرصہ سے ہندوستان کی سیاست میں جس داخلہ کا انتظار تھا وہ بالآخر اب ہوگیاہے‘ وہیں لوگ وقت اور ان کے رول اور موقف پر بحث کررہے ہیں ‘ میرے لئے یہ حقیقت میں ایک خبر ہے کہ بالآخر انہوں نے دھوم مچانے کا فیصلہ کرلیاہے۔
مبارکبا د او رنیک تمناؤں کا اظہار‘‘۔سینئر ایس پی لیڈر اور رکن قانون ساز کونسل ادویر سنگھ نے کہاکہ ’’ لوگ جو سوال پوچھ رہے ہیں کا جواب پرینکا گاندھی نہیں ہے۔ لوگ اصل سیاسی جماعتوں کانگریس ‘ ایس پی ‘ بی ایس پی اور بی جے پی کے پالیسیوں کی بنیاد پر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
اس کے برخلاف ایس پی اور بی ایس پی اتحاد کے امیدواروں کی سماجی بنیاد پر جیت کافی اہم معاملہ ہوگی‘‘۔
بی ایس پی کے ایک لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرینکا کے تقرر کے بعد کانگریس کارکنوں کے حوصلہ میں اضافہ ہوا ہے‘ کیونکہ انہیں پارٹی میں کچھ نیا احساس ہورہا ہے ‘ مگربی ایس پی او رایس پی کے اتحاد پر اس کا کوئی بھی’ ’اثر‘‘ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ’’ اگرلوگ ایک چہرے کی بنیاد پر ووٹ دیں گے تو نریند ر مودی سے مقابلہ کے لئے پرینکا گاندھی کافی نہیں ہے۔
وہ بھی وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہے۔اس کے برخلاف پچیس سے تیس فیصد ہر اسمبلی حلقہ کے رائے دہندے مودی کو شکست دینے کے خواہش مند ہیں۔
وہ ووٹرس کانگریس سے استفسار کررہے ہیں کس طرح وہ الیکشن میں جیت حاصل کریں گے‘‘