یوپی اسمبلی انتخابات مودی اور بی جے پی کی کڑی آزمائش

   

مہیر شرما
ہندوستان کی پانچ اہم ترین ریاستوں کے اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہوچکے ہیں اور لوگوں میں متعلقہ ریاستی حکومتوں کے بارے میں ناراضگی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ ایسے انتخابات ہیں جو بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کی دوسری میعاد کو مستحکم یا کمزور بنانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ اگرچہ پانچ ریاستیں مودی کیلئے اہمیت رکھتی ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم ریاست اترپردیش ہے جس کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ دہلی کے اقتدار تک پہنچنے کیلئے یوپی سے گزرنا پڑتا ہے اور جو یوپی میں کامیاب ہوا وہ دہلی کے تخت پر بیٹھ سکتا ہے۔ جہاں تک یوپی کا سوال ہے، یہ ایک بہت بڑی ریاست ہے اور اس کی آبادی برازیل کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستانی شہری اترپردیش کو تاریخی اور روحانی اعتبار سے اہم علاقہ تصور کرتے ہیں۔ بی جے پی کے سب سے زیادہ ارکان بشمول خود مودی اترپردیش کے حلقوں سے ہی پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔ 543 رکنی ہندوستانی پارلیمنٹ میں 80 ارکان یوپی سے بھیجے جاتے ہیں جو دیگر ریاستوں کی بہ نسبت دوگنی تعداد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اترپردیش کے عوام اس مرتبہ کونسا کردار ادا کریں گے۔ بی جے پی کو پھر ایک بار کامیابی دلائیں گے یا پھر اسے شکست سے دوچار کریں گے۔ پچھلے پانچ برسوں سے اس ریاست میں نریندر مودی کی بی جے پی اقتدار میں ہے۔ مودی کیلئے یہ انتخابات ایک آزمائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار اترپردیش کا دورہ کرتے جارہے ہیں۔ کسی اور وزیراعظم نے شاید اس قدر زیادہ دورے نہیں کئے ہوں گے۔ یہ انتخابات ان کی مقبولیت کا بھی امتحان ہے۔ یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج کا 10 مارچ کو اعلان کیا جائے گا۔ ناکامی یا پھر انتہائی کم اکثریت سے کامیابی بھی وزیراعظم نریندر مودی کے امیج کو داغدار بنادے گی اور ان کے خلاف لوگوں میں جو ناراضگی ہے اسے بھی واضح کردے گی۔ یہ انتخابات ایک ایسے وقت منعقد کئے جارہے ہیں جبکہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر شروع کی گئی ہے۔
اُترپردیش کئی ایک مسائل سے دوچار ریاست ہے۔ معیشت کا تو برا حال ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک رجحان بیروزگاری کا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے ریاست کی ترقی کے امکانات کو بڑھانے یا بہتر بنانے کیلئے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ PPP کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اترپردیش کی فی کس اوسط آمدنی زمبابوے سے بھی کم اور ہیتی جیسے غریب ملک سے بمشکل کچھ زیادہ ہے۔ اس ریاست میں بیروزگاری نقطہ عروج پر ہے۔ لوگ خاص طور پر نوجوان بیروزگاری کا بری طرح شکار ہیں۔ جنوری میں اترپردیش اور اس کی پڑوسی ریاست بہار سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، کیونکہ وہاں بیروزگاروں نے بڑے پیمانے پر پرتشدد احتجاج کیا۔ اخبارات نے بیروزگار نوجوانوں کے اس احتجاج اور احتجاج کو ختم کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات کو ہندوستان کا پہلا بڑے پیمانے پر ہونے والا بیروزگار فساد قرار دیا۔ دراصل انڈین ریلویز میں چھوٹے درجہ کی 35 ہزار مخلوعہ جائیدادوں کیلئے کئی برس قبل درخواستیں طلب کی گئی تھیں اور جس کے لئے 12 ملین سے زائد امیدواروں نے اپنی درخواستیں دی تھیں لیکن کافی عرصہ گذر جانے کے باوجود ان کی درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ، نتیجہ میں بیروزگار نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ان لوگوں نے زبردست احتجاج کیا۔ ان مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ ان ملازمتوں کے لئے امیدواروں کی بھرتی کی بجائے غیرمنصفانہ طور پر کالج گریجویٹس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ آپ کو یاد دلادیں کہ مودی نے اس کثیر آبادی والی ریاست پر خصوصی توجہ دینے سے قبل ایک دہے تک ہندوستان کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک گجرات کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ گجرات ایک ساحلی ریاست ہے اور مودی نے وہاں بحیثیت چیف منسٹر تین میعادوں تک کام کیا۔
بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اترپردیش میں قومی شاہراہوں کو ترقی دینے ان کا جال بچھانے اور دیگر بنیادی سہولتوں کے فروغ کے ذریعہ عوام کی خدمت کی ہے اور گجرات کی طرح ریاست اترپردیش میں فیکٹریوں کے قیام کیلئے کمپنیوں کو راغب کیا ہے۔ بی جے پی کا وعدہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ ریاست میں اقتدار پر آتی ہے تو پھر ریاست کی ترقی کیلئے جو کوششیں شروع کی گئی ہیں، ان میں شدت لائے گی۔ 6 نئے میٹروز، 5 نئے ایکسپریس ہائی ویز، 2 نئے انٹرنیشنل ایرپورٹس اور 25 نئے بس ٹرمنل کی تعمیر عمل میں لائے گی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لاکھ دعوے اور وعدے کرے تاہم گجرات کی طرح اترپردیش اور بہار میں بیروزگاروں کیلئے روزگار اور ملازمتوں کا انتظام کرنا کافی مشکل ہے۔ گجرات ایک ساحلی ریاست ہے اور علاقائی تجارت کا مرکز ہونے کی تاریخ رکھتی ہے۔ چین جیسے ملکوں میں بھی زیادہ سے زیادہ فیکٹریوں کا قیام اور روزگار کی فراہمی ساحلی علاقوں میں دیکھی گئی ہے، کیونکہ یہ ایسے علاقے ہوتے ہیں جو دنیا سے بہتر انداز میں مربوط رہتے ہیں، لیکن اترپردیش کا تو برا حال ہے جہاں تنخواہیں بہت کم ہیں اور سرمایہ کاری کے مواقع ہونے کے باوجود سرمایہ داروں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش کئی ایک مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ کنکٹیوٹی کا مسئلہ ہے۔ اس ریاست میں انتظامیہ، لا اینڈ آرڈر اور حکمرانی جیسے مسائل بھی درپیش ہیں اور وہاں یہ تمام کے تمام کمزور ہیں۔ اترپردیش سرمایہ کاروں کیلئے اس لئے بھی پرکشش نہیں، کیونکہ اگر وہاں مذکورہ تمام مسائل پر کرشماتی طور پر قابو بھی پالیا جائے تب بھی سرمایہ کار سرمایہ مشغول کرنے کیلئے آگے نہیں بڑھیں گے کیونکہ سرمایہ کار ساحلی پٹیوں اور بندرگاہی شہروں کے حامل علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اترپردیش کے عوام اس لئے بھی ناراض ہیں کہ وہاں کوئی روزگار نہیں اور نہ ہی حکومت اقتصادی استحکام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے روزگار پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت اگر ریاست کی افرادی قوت کو مختلف مہارت سے لیس کرتی ہے، نگہداشت صحت کی سہولتوں کو بڑھاتی ہے، انہیں ایک سماجی تحفظ کا ایک محفوظ جال فراہم کرتی ہے تو پھر اس کا مثبت اثر عوام پر پڑسکتا ہے لیکن حالیہ عرصہ کے دوران خاص طور پر پچھلے پانچ برسوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اترپردیش میں مزدور طبقہ، غریب طبقہ، یہاں تک کے متوسط طبقہ بھی کافی متاثر ہوا اور مزدور طبقہ کو نقل مکانی کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ یہ پہلو بھی بی جے پی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اترپردیش میں عوام کی بہبود سے متعلق پروگرامس و اسکیمات پر عمل آوری کے بجائے سیاست داں صرف وعدے کررہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سرکاری شعبہ کو وسعت دیں گے۔ مزدوروں کی نقل مکانی کا خاتمہ کریں گے، زیادہ سے زیادہ طیران گاہوں کی تعمیر عمل میں لائیں گے، لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ ریاست کی تباہ کن معیشت کو بہتر بنا پائیں گے۔ اس لئے بی جے پی ریاست میں عوامی ناراضگی کا سامنا کررہی ہے لیکن وہ اس ناراضگی کو ختم کرنے کیلئے کیا حربہ استعمال کرتی ہے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔