یوپی الیکشن : اب بی جے پی نے متھرا شاہی عید گاہ کو بنایا انتخابی حربہ

   

الاس دیر پال و سوربھ شرما
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کافی اہمیت کے حامل ہیں اور نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی میڈیا ان انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ اترپردیش میں 10 فروری سے سات مرحلوں کی رائے دہی کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ اب تک جو سروے کئے گئے ہیں، اُس میں حکمراں ہندو قوم پرست پارٹی یعنی بی جے پی کی کامیابی کی پیش قیاسی کی جارہی ہے (یہ اور بات ہے کہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ اداروں کے ذریعہ کرائے گئے سروے میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان ٹکر کے مقابلے کی بات کی جارہی ہے۔ بعض سروے میں تو اس مرتبہ بی جے پی کی شکست اور سماج وادی پارٹی کی کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے)۔ اس ریاست میں جس کی آبادی زائد از 25 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے لیکن حکمراں جماعت نے بڑی ہی ہشیاری کے ساتھ ذات پات کے رجحان کو ہندو۔ مسلم تنازعہ میں تبدیل کیا ہے اور انتخابی مہم میں بھی حکمراں جماعت کے قائدین بشمول چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ بھی 80% بمقابلہ 20% کی بات کررہے ہیں۔ متھرا جہاں پر شاہی عیدگاہ اور مندر ایک دوسرے سے متصل ہیں، وہاں کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس پرامن شہر میں تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے اور کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ فرقہ پرستی اور مذہبی خطوط کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے الزامات اور اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنی بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ اقلیتوں اور ہندوؤں کو ایک جیسے ہی دیکھتی ہے۔ جہاں تک متھرا کا سوال ہے، وہاں کے مسلمانوں نے جس طرح کشیدگی میں اضافہ کی بات کہی ہے، ہم نے بھی ہندوستان کے اس مذہبی شہر میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ریسٹورینٹس خالی ہیں یا پھر ان کے شٹرس گرے ہوئے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہندو مذہبی رہنما اور ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے پچھلے سال ہی علاقہ میں گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم زیرانتظام ریسٹورینٹس کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔
اب زعفرانی لباس زیب تن کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ جاریہ ماہ منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے خواہاں ہیں اور انہوں نے متھرا مندر کی جانب توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مندر ۔ مسجد تنازعہ میں جو ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے ، ہندو کاسٹ کے چمپین کے طور پر ابھریں گے۔ اترپردیش میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے بی جے پی کا اترپردیش میں کامیاب ہونا ضروری ہے، اسی وجہ سے وہ اپنی انتخابی مہم میں متھرا کی مندر ۔ مسجد کے مسئلہ کو اٹھا رہی ہے۔ اترپردیش 25 کروڑ آبادی والی ریاست ہے اور قومی سیاست میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جو بھی پارٹی اس ریاست میں کامیابی حاصل کرتی ہے، مرکز میں اس کی حکومت بننے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک متھرا کا سوال ہے، متھرا میں شاہی مسجد و عید گاہ پر فرقہ پرست جماعتیں جو خود کے قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، مسجد کو ہندوؤں کی ملکیت قرار دیتی ہیں۔ کئی موقعوں پر مندر۔ مسجد کے مسئلہ پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خطرناک فسادات بھی ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا کہیں نہ کہیں سلسلہ جاری رہتا ہے۔ 2020ء کے اوائل میں سارے ملک میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مسلمانوں نے اس قانون کو تعصب، جانبداری اور امتیاز پر مبنی قرار دیا۔ مسلمانوں کے احتجاجی مظاہروں کے جواب میں برپا کئے گئے فسادات اور پولیس کارروائی میں درجنوں زندگیوں کا اتلاف ہوا۔ ہم نے متھرا 20 سے زائد مسلم مکینوں کے انٹرویوز لئے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ متھرا کے مسلمانوں نے اپنی سکیورٹی کو لے کر فکرمندی پائی جاتی ہے۔ سوشیل میڈیا پر بھی مسلمانوں کے خلاف پوسٹس وائرل کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ہندو قوم پرستی کی تحریک پر کئی کتابیں لکھ چکے نلجن مکھا پادھیائے کا کہنا ہے کہ ایک پرانا کیس جو ختم ہوچکا ہے، اس کا احیاء کیا جارہا ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک نیا فاتح ہندو ازم ابھر آیا ہے اور انتخابات میں ہندو کارڈ کھیلنے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگرچہ ریاست اترپردیش اور مرکز میں اقتصادی پالیسیوں خاص طور پر کورونا وباء سے نمٹنے میں ناکامی کو لے کر یوپی کے عوام بی جے پی سے ناراض ہیں اور حکمراں جماعت کو ان کی ناراضگی کا احساس بھی ہے، اس کے باوجود اب تک جو اوپینین پولس آئے ہیں، ان میں پیش قیاسی کی گئی ہے کہ بی جے پی کو کامیابی ملے گی۔ جہاں تک چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کا سوال ہے، بعض تجزیہ نگار انہیں نریندر مودی کے جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یوگی نے انتخابی مہم میں فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے اور 80% بمقابلہ 20% کا نعرہ لگایا ہے۔ اگرچہ انہوں نے ان اعداد و شمار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے، یہ تناسب ریاست میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہم نے آدتیہ ناتھ کے دفتر سے متھرا کی صورتحال پر تبصرہ کرنے کی التجاء کی لیکن وہاں سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ آپ کو بتا دیں کہ 2017ء میں بی جے پی نے اترپردیش میں اقتدار حاصل کیا۔ مسلمانوں سے دشمنی اور تعصب کیلئے بدنام بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کو نہیں اُتارا۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کو یہ زعم ہے کہ ملک میں ان کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔ 2014ء میں مودی اقتدار پر آئے تھے۔ اصل اپوزیشن جماعت کانگریس کو شکایت ہے کہ مودی اور بی جے پی نے اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ اپنایا ہوا ہے اور اسی وجہ سے ہمیشہ تشدد یا فسادات برپا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ مودی نے ہمیشہ اپنے ریکارڈس کی مدافعت کی اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی اقتصادی اور سماجی پالیسیوں سے تمام ہندوستانیوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر جمال صدیقی کہتے ہیں کہ پارٹی اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دینے کیلئے کام کررہی ہے۔ نہ صرف یوپی بلکہ دیگر چار ریاستوں میں بھی اس مرتبہ اقلیتی امیدواروں کو میدان میں اتارا جائے گا۔ انہوں نے رائٹر کو بتایا کہ انہیں پوری امید ہے کہ اس مرتبہ اقلیتی طبقہ انتخابات اور حکومت دونوں میں حصہ لے گا۔ جمال صدیقی دعویٰ کرتے ہیں کہ مودی حکومت نے تمام مذاہب کے مذہبی مقامات کا تحفظ کیا ہے اور مسلمان بی جے پی کے قریب آرہے ہیں ۔ ہندوازم کے مقدس شہروں میں متھرا کا شمار بھی ہوتا ہے جو دہلی کے جنوب میں 150 کیلومیٹر فاصلے پر واقع ہے اور اسے ہندوؤں کے اہم بھگوان کرشنا کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ زعفرانی جماعت اور سنگھ پریوار کا دعویٰ ہے کہ کرشنا کی جائے پیدائش پر ایک مندر ہوا کرتی تھی جسے گرا کر وہاں مسجد تعمیر کردی گئی اور وہ مسجد شاہی عید گاہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ مغل حکمرانی کے دوران 17 ویں صدی میں یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ مسجد سے متصل 1950ء میں ایک مندر کامپلیکس تعمیر کیا گیا، 1968ء میں اس تنازعہ کے حل کیلئے ایک معاہدہ طئے پایا اور تب سے ہی مندر اور مسجد ایک دوسرے سے متصل ٹھہری ہوئی ہیں۔ زیڈ حسن صدر عید گاہ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ 2020ء تک اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن وزارت کو منہدم کرنے کیلئے 2020ء میں قانونی کارروائی شروع کی گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں یہاں پر 55 سال سے مقیم ہوں اور کبھی بھی ہم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ نہیں دیکھا۔ واضح رہے کہ بعض ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایک مقامی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے 1968ء میں اس مقام کی ملکیت کے بارے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو معاہدہ طئے پایا تھا، اسے ایک دھوکہ دہی قرار دیا ، ہندو فریق کے وکیل وشنو جین کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہمارے لئے بہت اہم ہے اور میں کسی بھی قسم کے مذاکرات پر یقین نہیں رکھتا۔ صلح کا ایک ہی طریقہ ہے، مسلمانوں کو اس ملکیت سے دستبردار ہونا ہوگا۔ فریقین کو توقع ہے کہ یہ مقدمہ بھی برسوں چلے گا ۔