یوپی: مظفر نگر میں پولیس کی بربریت

,

   

انسانیت کوکیا شرمسار‘ عالم دین کے ساتھ بدسلوکی‘ یتم خانہ کے بچوں کو بھی نہیں بخشا
مظفر نگر۔یہاں مظفر نگر میں 20ڈسمبر کے روز شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد جہاں پولیس کے ذریعہ فائرینگ وزدوکوب اور گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ ولوٹ مار کرنے اور عالم دین سمیت حوزہ علمیہ کے کمسن بچوں کو زدوکوب کرنے

اور گرفتار کئے جانے کے شرمناک معاملہ کے علاوہ پولیس زیادتی کے رونگٹے کھڑے کردینے والے متعدد معاملہ سامنے ائے ہیں۔ مظفر نگر پولیس پر ایک یتم خانے اور مدرسے کے استاد اور ام کے ساتھ 100سے زائد طلبا کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا الزام لگایاجارہا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 20ڈسمبر کو سعادت مدرسہ و یتیم خانے کے قریب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے پر پولیس نے سعادت مدرسہ ویتیم خانے کے استاد 65سالہ مولانا اسد رضا حسینی سمیت اسی مدرسے کے 100سے زائد طلبا کو حراست میں لیے لیاتھا۔

ان طلبا میں کئی نابالغ بھی تھے۔ مولانا اسد رضا حسین نے پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پولیس حراست کے دوران انہیں رات میں ننگا کرکے ذہنی اذیتیں بھی دی ہیں۔

 

پولیس حراست سے رہا ہونے کے بعد مولانا اسد رضا حسینی اور متاثرہ طلبا نے پولیس بربریت کی جوداستان سنائی ہے وہ اترپردیش پولیس کی فرقہ پرستی کواجاگر کررہی ہے۔

ٹیلی گراف اخبار میں 29ڈسمبر کو شائع رپورٹ کے مطابق66سالہ مولانا اسد رضا حسینی کے پیروں میں اتنے زخم ہیں کہ وہ چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔

مولانا اسد رضا حسینی اب اپنے رشتہ کو اپنی صورت دیکھانے سے بھی گریز کررہے ہیں کیونکہ پولیس کے ظلم وستم سے وہ صدمہ میں ہیں۔رپورٹ کے مطابق20ڈسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے بعد پولیس نے مولانا اسدر ضا حسینی کو لاٹھیوں سے پٹائی کرتے ہوئے گھسیٹ کر ہاسٹل سے باہر نکالا۔

پولیس حراست سے رہائی کے بعد مولانا نے اپنے ایل خانہ کو بتایا کہ 24گھنٹوں تک سیول لائنس بیرکس میں رکھا گیا‘ جہاں انہیں ننگا کر رات بھر پیٹائی کی گئی۔

وہیں مدرسہ کے طلبا‘ پڑوسیوں نے ٹیلی گراف اخبار کو بتایا کے قریبی روم میں 14سے 21سال کے طلبا کو رکھاگیاتھا۔ انہیں بھی لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور انہیں رات بھر گھٹنے پر ٹھہرایاگیا۔

وہیں سلمان سعید کا کہنا ہے کہ بعض طلبا نے پولیس پر الزام لگایا کہ ان سے زبردستی جئے شری رام کا نعرہ لگایاگیا۔

مولانا اسدر ضا حسینی کے ایک رشتہ دار نے شناخت ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس نے مولانا کے اہل خانہ کو فون کرکے کہاکہ انہیں جلد ہی رہا کردیاجائے گا او روہ سیول لائنس بیراکس میں آتے وقت مولانا کے کپڑے ساتھ لائیں اور مولانا کو اپنے ساتھ لیے جائیں۔

اسد رضا حسینی کے اہل خانہ پر سکتہ طاری ہوگیا ہے کہ پولیس نے انہیں مولانا کے کپڑے لانے کے لئے کیوں کہا؟۔جب مولانا کے اہل خانہ کرتا پائجامہ لے کر سیول لائنس بیراکس پہنچے تو پولی سنے ان سے کپڑے دینے کو کہا اور پھر مولانا اسد رضا حسینی کو کپڑے دئے گئے‘ جس کے بعد وہ باہر ائے۔

رشہ دار نے ٹیلی گراف اخبار کو بتایا کہ مولانا اسد رضا حسینی چل بھی نہیں پارہے تھے‘ ان کے ہاتھوں اور پیروں پر بہت سے زخم تھے۔

تاہم بہت ہی مشکل سے اہل خانہ نے مولانا اسدرضا حسینی کو اپنی گاڑی میں گھر لیے گئے۔ اس پورے واقعہ کے بعد مولانا اسد رضا حسینی رات کے اوقات میں گھبرا کر بیدار ہورہے ہیں۔

وہ پولیس کی ظلم وبربریت سے خوفزدہ ہیں اور رشتہ داروں سے ملاقات کرنے سے ڈر رہے ہیں۔

ٹیلی گراف اخبار کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ اخبار کے نمائندے نے اس پورے معاملے پرمولانااسدرضاحسینی کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کے لئے وہ ان کے گھر گئے۔

لیکن گھر میں موجود ایک خاتون نے نمائندے سے بات کرنے سے انکارکردیا۔خاتون نے نمائندے سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہاں مسلمان بہت خوف زدہ ہیں۔ رات کو پولیس ائے گی‘ کسی کو پتہ نہیں ہے‘ پولیس آتی اور توڑ پھوڑ کر کے چلی جاتی ہے۔

تم دہلی سے ائے اور ہمارے بارے میں لکھ کرچلے جاؤں گے‘ لیکن ہمیں یہاں ہمارے بچوں کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں زندگی گذار رہے ہیں جہاں منہ بھی نہیں کھول سکتے ہیں۔

جب ٹیلی گراف کے نمائندے نے سوال کیاکہ پولیس بربریت کے متعلق مولانا اسدر ضاحسینی کے اہل خانے ضلع انتظامیہ سے شکایت کی ہے؟ تو خاتون نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جب پولیس اور حکومت ہی ظلم ہوگئی تو ہم کس سے رجوع کریں؟۔

اس پورے معاملے پر ٹیلی گراف اخبار مظفر نگر پولیس انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی‘ لیکن کوئی جواب نہیں دیاگیا۔

دوسری جانب لوٹ کی ایک واردات کے معاملے میں مولانا حفظ القدیر ندوی وشاملی کے ان کے دوست سمیع اللہ خان نے بتایا کہ مظفر نگر کے مہاویر چوک پر موبائیل ہول سیل کی مارکم میں مسلمانوں کی صرف دو دوکانیں ہیں اوران میں سے ایک دوکان سمیع اللہ خان کے بہنوائی کی ہے۔

ڈسمبر20کو پرامن مظاہرہ کے بعد لوگ واپس لوٹ رہے تھے‘ ان کے بہنوئی جو کہ اپنے گھر میں تھے‘ ان کے پاس مارکٹ کے ہی ایک ہندو دوکاندار نے انہیں فون پر بتایا کہ آپ جلدی ائیں‘ آپ کی دوکان لوٹی جارہی ہے۔

وہ فورا مہاویر چوک پہنچے جہاں ہندو نوجوانوں کی مشتعل بھیڑ ان کی دوکان کا شٹر توڑ چکی تھی