یوپی میں بی جے پی کے خلاف عوامی غصے کا سیلاب

   

ظفر آغا

آپ بھی کیا کہیں گے کہ پھر وہی اتر پردیش کا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔ کروں کیا، اتر پردیش میں چناؤ نہیں بلکہ ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اگر بی جے پی وہاں چناؤ ہار گئی تو پھر بی جے پی کے لیے سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ میں بھی مشکلیں پیدا ہو جائیں گی۔ آثار یہ نظر آرہے ہیں کہ بی جے پی صوبہ اتر پردیش کا سنہ 2022 کا اسمبلی چناؤ ہار سکتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ صوبہ کے مختلف چناوی حلقوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ بی جے پی کے امیدوار اپنے حلقوں سے بھگائے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو بذاتِ خود یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ جب اپنے اسمبلی حلقہ سراتھو پہنچے تو ان کے خلاف لوگ اکٹھا ہو گئے۔ حضرت وہاں مشکل میں پھنس گئے۔ بمشکل تمام پولیس نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کو ’باعزت‘ نکال کر لائی۔ ان دنوں بی جے پی مخالفین ان سے متعلق اس ویڈیو کو بطور تحفہ ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں اور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ لیکن آپ کتنے ایسے ویڈیو کا لطف لیجیے گا۔ کیونکہ کبھی میرٹھ تو کبھی مظفر نگر تو کبھی سنبھل جیسے شہروں سے بھی بی جے پی امیدواروں کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے جو موریہ کے ساتھ ہوا اور ان کی بھی ویڈیوز گھوم رہی ہیں۔
الغرض صورت حال یہ ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کے قدموں تلے زمین کھسک رہی ہے اور چناؤ روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ اب تو وزیر اعظم نریندر مودی بھی اتر پردیش سے خائف نظر آرہے ہیں۔ کم از کم پچھلے دس روز سے ان کے منھ سے یوپی چناؤ سے متعلق ایک لفظ بھی سننے کو نہیں ملا۔ نہ ہی وہ انتخابی تشہیر میں یوپی گئے۔ بیچارے امت شاہ کو ضرور مغربی اتر پردیش میں جھونک دیا گیا ہے۔ پیدل گھر گھر جا کر پرچے بانٹ رہے ہیں اور بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ یعنی خود مودی جی کم از کم ابھی تک یوپی چناؤ سے دستبردار نظر آرہے ہیں اور انھوں نے لگتا ہے کہ ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ایسا وہ تب کرتے ہیں جب ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی چناؤ ہار سکتی ہے۔ مثلاً، جب دہلی میں کیجریوال کے خلاف بی جے پی کی ہار یقینی ہو گئی تھی تو مودی نے دہلی اسمبلی چناؤ کیمپین سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اور اس وقت بھی یہ ذمہ داری امت شاہ کے کاندھوں پر ڈال دی گئی تھی اور بیچارے وزیر داخلہ نے اس وقت بھی چناوی پرچے بانٹے تھے۔
لیکن بی جے پی کے خلاف اتر پردیش میں اس قدر زبردست غصے کا سیلاب کیوں پھوٹ پڑا ہے؟ دو سبب نظر آرہے ہیں۔ اولاً تو صوبہ کا غریب بے روزگری اور معاشی بدحالی کا ایسا شکار ہوا کہ اس کے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کرنا مشکل ہو گئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ہفتہ ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی جو چونکانے والی تھی۔ اس سروے کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ملک کے سب سے نچلے طبقے کی 20 فیصد آبادی کی آمدنی 56 فیصد گھٹ گئی۔ اس کے برخلاف 13 فیصد امیروں کی آمدنی 42 فیصد بڑھ گئی۔ یعنی ملک کا غریب مزید غریب ہو گیا، جب کہ امیر مزید امیر ہو گیا۔ اتر پردیش میں غریبی کی مار ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں صوبہ کی بڑی آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل تھی۔ اس پر سے اگر کووڈ کی وبا کا کوئی شکار ہو گیا تو بے چارہ بغیر دوا اور علاج مارا گیا۔ عالم یہ تھا کہ لوگوں کے پاس آخری رسومات کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ تب ہی تو اکثر لوگوں نے لاشیں گنگا کو سونپ دیں۔ دوسرا سبب غصے کا یہ ہے کہ یوگی حکومت نے پسماندہ اور دلتوں کو اقتدار میں حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ ان کی منوادی ذہنیت کے سبب اتر پردیش میں پسماندہ ذاتیں اور دلت بالکل کنارے ہو گئے جب کہ منڈل کے بارے میں یہ ذاتیں وہاں تقریباً 30 برسوں سے اقتدار کے مالک تھے۔ چنانچہ چناؤ کا اعلان ہوتے ہی پسماندہ ذاتوں کے وزراء یوگی حکومت چھوڑ کر اکھلیش یادو کے ساتھ چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کی کمنڈل یعنی ہندو ووٹ بینک کی سیاست ناکام ہو گئی اور اب مسلم منافرت کا کارڈ بھی ناکام ہوتا جا رہا ہے۔
لب و لباب یہ کہ یوپی میں بی جے پی کے خلاف عوامی غصے کا سیلاب ہے جو باندھ توڑ کر نکل پڑا ہے، جس کے سبب بی جے پی نمائندوں کو اپنے علاقوں میں گھسنا مشکل ہو رہا ہے۔ لیکن بی جے پی ایسی پارٹی نہیں کہ وہ اپنی ہار جلد مان لے۔ خبروں کے مطابق اس نے ایک بار پھر اپنی ’بانٹو اور راج کرو‘ حکمت عملی کو تیز کر دیا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت پارٹی دو سطحوں پر کام کر رہی ہے۔ اولاً ہندو-مسلم منافرت کا کام ہو رہا ہے اور دوئم یہ بھی کوشش ہے کہ پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کا ووٹ ذات کے نام پر تقسیم کر دیا جائے۔ تب ہی تو ابھی پچھلے ہفتے امت شاہ مظفر نگر گئے اور انھوں نے جاٹوں کو یہ سمجھایا کہ اگر سماجوادی پارٹی آ گئی تو اعظم خان جیل سے چھوٹ کر اقتدار میں آجائے گا اور پھر سنہ 2013 کے مظفر نگر دنگائیوں کی خیر نہیں رہے گی۔ جاٹ ووٹر کو یہ بھی یاد دلایا کہ وہ مغلوں کے خلاف لڑے تھے۔ الغرض گھبرائی بی جے پی ہر قسم سے ہندو۔مسلم کھائی پیدا کر چناؤ جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے ہی پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کا ووٹ ذات کے نام پر بانٹنے کی کوشش ہے۔ یعنی اگر حزب مخالف کی طرف سے ایک حلقے سے جاٹ کھڑا ہے تو اس کے خلاف اپنا جاٹ کھڑا کر ان کا ووٹ بانٹ دو۔ ہر قسم سے انگریزوں کی طرح ’بانٹو اور راج کرو‘ والا کام ہو رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی مخالفین کی اس پس منظر میں کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔ سیدھی سی بات ہے کہ بی جے پی مخالفین کی بھرپور کوشش یہ ہو کہ ان کا ووٹ مذہب یا ذات کے نام پر بنٹنے نہ پائے۔ کوشش یہی ہو کہ ہر حلقے میں جو بھی امیدوار مضبوط ہو، بی جے پی مخالفین مل کر مذہب اور ذات کا خیال کیے بغیر اسی کو یکجا ہو کر فتح دلائیں۔ یعنی وہ ’بانٹو اور راج کرو‘ کی کوشش میں ہیں، تو بی جے پی مخالفین کو ’جوڑو اور راج کرو‘ حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن عام ووٹر کو یہ بات سمجھانے کا کام کرے کون!
ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری تو خود اپوزیشن پارٹیوں کی ہے کہ وہ کھل کر بی جے پی کی ہندو۔مسلم منافرت کے خلاف کیمپین کریں۔ ساتھ ہی ہندو عوام کو سمجھائیں کہ یہ چناؤ ذات پات کا نہیں ’سماجک نیائے‘ کا چناؤ ہے اور سب کو مل کر یعنی ’جوڑو اور راج کرو‘ حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کے علاوہ یہ ذمہ داری ہر حلقہ کے سیاسی باشعور افراد اور سول سوسائٹی کے افراد کی بھی ہے۔ ان کو چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر گھروں میں بیٹھکوں پر اور چائے خانوں میں جا جا کر چھوٹی چھوٹی میٹنگیں کرنی چاہئیں۔ ان میٹنگوں میں عام ووٹر کو اس چناؤ کی اہمیت سمجھانی چاہیے اور ’جوڑو اور راج کرو‘ حکمت عملی سمجھانی چاہیے۔ تب ہی بی جے پی کے خلاف زمینی سطح پر جو مخالفت کا سیلاب بہہ رہا ہے وہ اس بار چناوی ہار میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ بس اسی میں عوام اور ملک دونوں کی نجات بھی ہے۔