یو جی سی اور این سی ای آر ٹی پر ہندو قوم پرستوں کا کنٹرول

   

رام پنیانی
اب جبکہ حکمراں پارٹی بی جے پی اقتدار میں اپنی دوسری میعاد کی تکمیل کے قریب ہے، ملک کے اکثر اداروں پر اس کے بہت زیادہ بلکہ توقع سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو حاشیہ پر لانے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کے معاملہ میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ انکم ٹیکس اور سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور ان ایجنسیوں نے اپنا اپنا کردار بہتر طور پر نبھایا۔ اس بارے میں سارے عوام جانتے ہیں۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے جب بھی وقت آیا اس نے جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ اس معاملہ میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور این سی ای آر ٹی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ ان دونوں مرکزی اداروں نے تعلیمی پیاٹرن یا نمونہ کو اس انداز میں تبدیل کیا جو حکمراں جماعت اور اس کی حکومت کے سیاسی نظریہ کیلئے بالکل موزوں و مناسب ہو۔ ایک سطح پر نئی تعلیمی پالیسی اسی مقصد کیلئے لائی گئی کہ ہمارے تعلیمی نظام کا سارا نمونہ اور ساخت تبدیل ہوکر رہ جائے۔ بی جے پی حکومت کے ان دس برسوں کے دوران ہم سب نے دیکھا کہ کیسے باقاعدہ طور پر وقفہ وقفہ سے ہدایات دی جارہی ہیکہ طلبہ کے نصاب میں ہندو قوم پرستی کے جذبات اور اخلاقیات کو شامل کیا جائے (حالانکہ ہندوستان جیسے جمہوری و سیکولر ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں) یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا جب یہی حکومت طلباء کو ڈرا دھمکا رہی تھی اور طلبہ تحریک اوران کے احتجاج کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کررہی تھی تب اس نے طلبہ کی سرگرمیوں کو قوم دشمن قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس وقت کی مرکزی وزیرفروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے یہ آئیڈیا یا خیال پیش کیا کہ ہر یونیورسٹی میں ایک بلند کھمبا نصب کیا جائے تاکہ اسی پر قومی پرچم لہرایا جائے۔ اس بات کا آئیڈیا بھی پیش کیا گیا کہ خاص طور پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی JNU میں ایک فوجی دبابہ بھی رکھا جائے کیونکہ جے این یو میں طلباء حکومت کے خلاف آواز اٹھارہے تھے۔ اسے اپنے مسائل کے حل میں ناکامی کیلئے تنقید کا نشانہ بنارہے تھے جو یقیناً حکمراں جماعت اور اس کی حکومت کی سوچ و فکر اور نظریات سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتے تھے بلکہ حکمراں جماعت کے نظریہ کے بالکل برعکس تھے۔
بہرحال حالیہ عرصہ کے دوران مزید سرکیولر جاری کئے گئے۔ ان میں سے ایک سرکیولر میں واضح طور پر ہدایت دی گئی ہیکہ طلبہ کو سال بھر چلنے والی دتاجی وڈولکر کی صد سالہ پیدائشی تقاریب میں شرکت کرنی چاہئے۔ آپ کو بتادوں کہ دتاجی کوئی مجاہد آزادی نہیں بلکہ آر ایس ایس پرچارک تھے جنہوں نے آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP) قائم کی تھی جس کا مقصد ہندو قوم پرستی کو فروغ دینا تھا۔ خاص طور پر مہاراشٹرا کے کالجس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اے بی وی پی قائم کی گئی تھی تاکہ طلبہ کی مدد سے ایک ایسا Cult یا فرقہ پیدا کیا جاسکے جو صرف ہندوقوم پرستی کی بات کرے۔ اسے فروغ دینے کے منصوبے بنائے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا ہندو قوم پرستی کی شدت سے وکالت کرنے والے قبیل کی شخصیتوں کی پیدائشی تقاریب کو فروغ دینا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کیلئے صحیح ہے؟ جبکہ جن شخصیتوں کو فروغ دیا جارہا ہے وہ ایسی شخصیتیں ہونی چاہئے جو ہمیشہ ہندوستانی قوم پرستی کیلئے کھڑے رہے۔ اس کی تائیدو حمایت کی اور انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ مسٹر ودولکر آر ایس ایس کا ایک حصہ ہونے کے باعث کبھی بھی جدوجہد ازادی کا حصہ رہے اور نہ ہی دستور ہند کے اصولوں و اقدار کے حق میں کھڑے رہے اور کبھی اس کی نمائندگی بھی نہیں کی۔ یو جی سی نے ایک اور سرکیولر جاری کیا جس میں ایسے ’’سیلفی پوائنٹ‘‘ قائم کرنے کی ہدایات جاری کی گئی جس کے پس منظر میں وزیراعظم نریندر مودی کی قدآور تصویر ہو۔ اس طرح کے اقدامات یقیناً 2024ء کے عام انتخابات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے جارہے ہیں۔ یہ ایک ایسا آئیڈیا ہے جس کیلئے ایک جمہوری ملک میں کوئی جگہ نہیں بلکہ ایک مخصوص پارٹی اور اس کے سپریم لیڈر کے حق میں جان بوجھ کر کیا جارہا پروپگنڈہ ہے۔ اس طرح کے اقدامات جمہوری اور دستوری اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے اور ہم اسے بلا شک و شبہ حکمراں جماعت کی جانب سے کئے جانے والا اقتدار کا بیجا استعمال اور استحصال بھی کہہ سکتے ہیں۔ حکمراں جماعت یا اس کی حکومت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے حال ہی میں مزید ہدایات جاری کئے، جس میں کہا گیا کہ ساتویں جماعت تا 12 ویں جماعت کے طلبہ کو رامائن اور مہابھارت پڑھایا جانا چاہئے اور اسے تاریخ کے نصاب کے ایک حصہ کے طور پر پڑھایا جانا چاہئے۔ یو جی سی نے یہ بھی ہدایت دی کہ رامائن و مہابھارت کو کلاسیکل پرئڈ میں شامل رکھا جائے۔ این سی ای آر ٹی ماہرین پیانل کے مطابق رامائنا اور مہابھارت پڑھنے سے طلبہ میں خوداعتمادی، حب الوطنی اور اپنے ملک پر فخر کا جذبہ بڑھے گا۔ اگر ہم ہندوستان کی دو بڑی اور اہم ترین رزمیہ نظموں یا افسانوی داستانوں کی بات کریں تو رامائن اور مہابھارت ہماری افسانوں داستانوں کا ایک اہم حصہ ہیں
جہاں تک رامائن کا سوال ہے یہ نہ صرف ہندوستان میں بہت زیادہ مقبول ہے بلکہ ایشیائی ملکوں میں بھی یہ کتاب بہت مقبول ہے۔ خاص طور پر سری لنکا، تھائی لینڈ، بالی سماترا وغیرہ میں رامائن کے ایک مقبول عام کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ رامائن کے کئی ورژن ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اصل رامائن والمیکی نے تحریر کی اور اسے عام و خاص میں بہت زیادہ مقبول بنانے کا کریڈٹ گوسوامی تلسی داس کے سر جاتا ہے جنہوں نے اسے مشہور و معروف آودھی Avadhi میں پیش کیا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ شمالی ہند کے مختلف حصوں میں یہ کتاب 16 ویں صدی کے مقبول عام تہذیب و ثقافت کا ایک اہم حصہ بن گئی۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ شری رام چندرجی کی کہانی کے بھی کئی ورژن ہے اور ان میں وہ ورژن بھی شامل ہے جسے ہندو قوم پرستوں نے فروغ دیا۔ اس سلسلہ میں Richa Paulman نے ’’کئی رامائنا نامی کتاب لکھی ہے جس میں شری رام چندرجی کی کہانی کے مختلف ورژن پر بحث کی گئی ان کی خوبیوں کو پیش کیا اسی خطوط پر رامانجنی نے ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا جس کا عنوان 300 رامائنس، پانچ مثالیں اور اس کے ترجمہ سے متعلق تین خیالات تھا وہ مضمون دہلی یونیورسٹی کے نصاب میں اس وقت تک شامل تھا، جب اے بی وی پی نے احتجاج کیا اور اس احتجاج کے نتیجہ میں اے کے رامانجن کے مضمون کو نصاب سے حذف کردیا گیا۔ جس کے ذریعہ معاشرہ اور اس دور کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی جاسکتی ہے۔یہ مذہبی رزمیہ تاریخ کی نامکمل معلومات و علم باہم سمجھ کی بجائے تاریخ کی گہری اور قابل قدر معلومات فراہم کرسکتی ہے۔