یو پی ‘ بی جے پی کیلئے سب کچھ ٹھیک نہیں

   

پھر کوئی کم بخت کشتی نذرِ طُوفاں ہوگئی
ورنہ ساحل پر اُداسی اسقدر ہوتی نہیں

اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کیلئے اب جبکہ آٹھ ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے بی جے پی ریاست میں حالات کو سازگار بنانے کیلئے سرگرم ہوچکی ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارے ملک میں کورونا کی دوسری لہر نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لوگ ابھی تک اس دوسری لہر کے اثرات سے متاثر ہیں اور انہیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ‘ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے اور لوگ بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں ‘ ملک کی معیشت منفی جی ڈی پی کا شکار ہوچکی ہے اس کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنی پارٹی کے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں جٹ گئے ہیں۔ جس وقت کورونا کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی تھی اور یومیہ متاثرین کی تعداد ریکارڈ حد تک بڑھتی جا رہی تھی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ متاثرین اور ریاستوں کی مدد کرنے کی بجائے مغربی بنگال کے انتخابات میں مصروف ہوگئے تھے ۔ اب جبکہ مابعد دوسری لہر حالات سدھرنے بھی نہیں پائے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اترپردیش کی تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔ گذشتہ چند دن سے جو تبدیلی ہوئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے ۔ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کے طرز کارکردگی نے خود بی جے پی کے حلقوں میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں تقریبا 200 بی جے پی ارکان اسمبلی آدتیہ ناتھ کے طرز کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ آدتیہ ناتھ نے جو آمرانہ روش اختیار کی ہوئی ہے اس نے پارٹی ارکان اسمبلی کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ کو بھی بدظن کردیا ہے ۔ چیف منسٹر پارٹی کے ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ یا ریاستی وزراء کیلئے بھی ناقابل رسائی بن گئے ہیں اور عوام کا تو حال ہی مت پوچھئے ۔ جس طرح سے انہوں نے کورونا کی دوسری لہر کے دوران حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کی ہے یا انکار کیا ہے اس سے ساری ریاست میں خود بی جے پی کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے اور لوگ حکومت کے کام کاج سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ ان میں حکومت کے خلاف برہمی پیدا ہوگئی ہے تاہم آدتیہ ناتھ اس کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کا بی جے پی کو اس وقت احساس ہوا جب خود بی جے پی کے مرکزی نمائندے اور آر ایس ایس کے ذمہ داران نے ریاست کا دورہ کیا ۔ پارٹی کے ارکان اسمبلی اور عوام میں حکومت کے خلاف جو احساسات پائے جاتے ہیں ان سے بی جے پی مرکزی قیادت کو واقف کروانے کے بعد اچانک ہی سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے خود چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کو دہلی پہونچنا پڑا ۔ بی جے پی حلقوں میںیہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں چیف منسٹر کو تبدیل کیا جائے تاہم بی جے پی کیلئے ایسا کرنا آسان نہیںہے کیونکہ اترپردیش میں بی جے پی آدتیہ ناتھ کو بغاوت کا موقع دے کر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ مرکزی قیادت چاہتی ہے کہ ریاستی کابینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو مودی اور امیت شاہ سے قربت رکھتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ اس کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے وزراء در اصل ان کی نگرانی زیادہ کرینگے اور آدتیہ ناتھ ایسا نہیں چاہتے ۔ سابق آئی اے ایس عہدیدار اے کے شرما کو کابینہ میں شامل کرنے کیلئے خود نریندر مودی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن آدتیہ ناتھ اب تک بھی اس کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے دورہ دہلی کے موقع پر کیا بات ہوئی ہے ابھی اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے لیکن یہ ضرور واضح ہوگئی ہے کہ مرکزی قیادت بھی اترپردیش کی صورتحال پر متفکر ہے اور چاہتی ہے کہ آدتیہ ناتھ اپنے طرز کارکردگی میں تبدیلی لائیں۔ اپنی روش کو بدلیں۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت اور پارٹی قائدین مسلسل دعوی کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی اور حکومت دونوں ہی سب کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتے ہیں لیکن جو صورتحال اترپردیش میں پیدا ہوئی ہے اس نے واضح کردیا ہے کہ بی جے پی خود اپنے ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے اور چیف منسٹر کسی کو بھی خاطر میں لانا نہیں چاہتے ۔ وہ آمرانہ روش کے ساتھ کم کر رہے ہیں۔ ان کی اس روش نے ریاست کے عوام کو بے تحاشہ مشکلات کا شکار کردیا ہے اور لوگ حکومت سے پوری طرح بد ظن ہوگئے ہیں۔ مرکزی قیادت کسی طرح عوام کی ناراضگی کو دور کرنا چاہتی ہے اور کسی ایسے فارمولے کی تیاری کی کوشش کر رہی ہے جس سے چیف منسٹر کی تبدیلی بھی نہ ہو اور عوامی ناراضگی بھی دور ہوجائے ۔ تاہم اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔بی جے پی کیلئے یہ صورتحال نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی ہوگئی ہے ۔
ویکسین پر بھی جی ایس ٹی !
مرکزی حکومت نے آج واضح کردیا ہے کہ کورونا ویکسین پر پانچ فیصد جی ایس ٹی عائد کیا جائیگا ۔ بلیک فنگس کی ادویات پر کوئی ٹیکس نہیںہوگا ۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارے ملک میں کورونا نے تباہی مچائی ہے اور لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں حکومت ایسے میں بھی جی ایس ٹی نفاذ کے ذریعہ مالیہ وصول کرنا چاہتی ہے ۔ سب سے پہلے تو خود حکومت نے ٹیکہ اندازی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ 75 فیصد تک ٹیکے مرکزی حکومت کی جانب سے دئے جائیں گے ۔ مابقی 25 فیصد خانگی دواخانوں کو ذمہ دیا جا رہا ہے ۔ حکومت نے ان پر جی ایس ٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف ٹیکہ کی قیمت مقرر کرے بلکہ خانگی دواخانوں کے سرویس چارچ کا بھی تعین کرتے ہوئے انہیں اس پر عمل کرنے کی تاکید کرے ۔ اس کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اعلان کرے ۔ جہاں حکومت خود پانچ فیصد جی ایس ٹی عائد کریگی وہیں خانگی دواخانوںمیں سرویس چارچ کے نام پر بھاری وصولی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے میں حکومت کو کورونا ویکسین پر پانچ فیصد جی ایس ٹی کے فیصلے سے عوامی مفاد میں دستبرداری اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔