یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

   

دہلی … نفرت کی ہار ، کام کی جیت
اگلا نشانہ … این آر سی اور یکساں سیول کوڈ
دیوبند … دہشت گردی نہیں شہیدوں کی گنگوتری

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کے سیاہ قانون نے دہلی میں بی جے پی کا منہ کالا کردیا۔ عام طور پر شکست کے بعد سیاسی پارٹیاں بہانے تلاش کرتی ہیں۔ کچھ اسی طرح امیت شاہ دہلی کی شکست کو شہریت ترمیمی قانون پر عوامی ریفرنڈم ماننے سے انکار کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے شہریت قانون ، شاہین باغ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی ، رام مندر اور طلاق ثلاثہ جیسے حساس اور متنازعہ مسائل پر الیکشن لڑا تھا۔ نفرت اور پھوٹ کے ایجنڈہ کو جب شکست ہوگئی تو امیت شاہ کی زبان پر ریفرنڈم آگیا ۔ ویسے کسی نے نہیں کہا تھا کہ نتائج CAA پر ریفرنڈم ہیں۔ خود امیت شاہ انکار کے ذریعہ دراصل اقرار کر رہے ہیں کہ شہریت قانون کو دہلی نے مسترد کردیا۔ اپنی عزت بچانے کیلئے امیت شاہ نے اس بیان کا سہارا لیا ہے۔ دل کی بات آخرکار زبان پر آگئی ۔ بی جے پی نے چانکیہ کی حیثیت سے شناخت رکھنے والے امیت شاہ کی تدبیریں اور سیاسی داؤ الٹے پڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر اہم ریاستوں میں بی جے پی کی شکست نے مودی۔امیت شاہ جوڑی کے چمتکار کو گہن لگادیا ہے۔ ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اس جوڑی کا عوام پر جادو بے اثر ہونے لگا ہے۔ پنجاب ، چھتیس گڑھ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، جھارکھنڈ کے بعد دہلی کی شکست نے گجرات کی جوڑی کے سیاسی سفر میں اسپیڈ بریکر کا کام کیا۔ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا ۔ دہلی کے رائے دہندوں نے حقیقی بادشاہ گر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ’’ہم ہیں تو سب کچھ ممکن ہے‘‘۔ اروند کجریوال کو اس قدر شاندار واپسی اور گجرات کی جوڑی کو اس قدر بدترین شکست کا اندازہ نہیں تھا۔ رائے دہی کے بعد امیت شاہ نے ٹوئیٹر پر بی جے پی کو 48 نشستوں کی پیش قیاسی کی تھی۔ نتائج سی اے اے پر ریفرنڈم نہیں ہیں ، کہنا دراصل سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک کے طول اور عرض میں جاری عوامی احتجاج کے نتیجہ میں امیت شاہ کے اندرونی خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے شاہین باغ سے عام آدمی پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ۔ شاہین باغ جو سیاہ قوانین کے خلاف ملک میں احتجاج کی علامت بن چکا ہے ۔ اس سے عام آدمی پارٹی قائدین نے اظہار یگانگت تک نہیں کیا اور نہ ہی اروند کجریوال نے احتجاجیوں سے ملاقات کی۔ کجریوال نے احتجاج کے سبب بند سڑک کھولنے کی وکالت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر پولیس ان کے کنٹرول میں ہوتی تو دو دن میں سڑک خالی کرادیتے۔ انتخابی مہم ہو کہ نتائج کے بعد کجریوال نے شاہین باغ سے اظہار ہمدردی اور یگانگت کے دو لفظ ادا نہیں کئے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کجریوال نے بی جے پی کے ہندوتوا کا جواب ہندوتوا سے دیا ۔ انتخابی مہم کے اختتام تک کجریوال نے مندروں کے درشن ، بی جے پی کی طرح دیش بھکتی کے نعروں اور ٹی وی چینلوں پر ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے بی جے پی کو بتایا کہ ہم بھی تم سے کم نہیں ۔ نتائج سے پہلے اور بعد میں کجریوال کسی مسجد ، چرچ یا گردوارہ نہیں گئے۔ کامیابی کے بعد عام آدمی پارٹی کے اسٹیج سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے حتیٰ کہ جئے شری رام اور جئے ہنومان جیسے نعرے لگائے گئے جو عموماً بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اسٹیج سے سنائی دیتے ہیں۔ امیت شاہ کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ مرکزی وزراء اور قائدین کی اشتعال انگیز تقاریر سے نقصان ہوا۔ گولی مارنے سے متعلق بیان کو شکست کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہوئے امیت شاہ نے ناکامی کا وبال اپنے سر سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

صرف ایک مرکزی وزیر نے متنازعہ بیان نہیں دیا بلکہ قائدین زہریلی تقاریر میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس وقت امیت شاہ نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ امیت شاہ کی منظوری سے ہی قائدین انتخابی مہم میں زہر گھول رہے تھے تاکہ ہندو ووٹ بینک متحد کرسکیں۔ اب جبکہ شکست ہوئی ، لہذا امیت شاہ اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ 6 چیف منسٹرس ، 30 مرکزی وزراء 200 ارکان پارلیمنٹ ، امیت شاہ کی 40 سے زائد ریالیاں اور نریندر مودی کی مہم کے باوجود دہلی نے کارکردگی اور مسائل کی بنیاد پر کجریوال کو دوبارہ اقتدار سے نوازا ۔ مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے مودی اور امیت شاہ نے شاہین باغ کو انتخابی موضوع بنایا۔ امیت شاہ نے کرنٹ دوڑانے کی بات کی، کسی نے گولی مارو تو کسی نے بولی سے نہ سمجھیں تو گولی کی دھمکی دی۔ ایک نے غدار تو دوسرے نے پاکستانی قرار دیا۔ کسی کو الیکشن انڈیا ۔ پاکستان میچ دکھائی دیا۔ الغرض انتخابی مہم میں طرح طرح کا زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ۔ سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج سے گھبراکر حکومت کہہ رہی ہے کہ این آر سی کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ امیت شاہ اور مودی این آر سی مسئلہ پر عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ جس چیز کا فیصلہ نہیں کیا گیا ، اس کے خلاف احتجاج کیسا؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ این آر سی ، بی جے پی ایجنڈہ میں شامل ہے ۔ امیت شاہ کا یہ اعتراف خود خطرہ کی گھنٹی ہے اور ملک پر این آر سی کا خطرہ برقرار ہے۔ بی جے پی نے ایجنڈہ پر جس تیزی سے عمل آوری کی ، اس کا ثبوت طلاق ثلاثہ ، 370 ، رام مندر اور شہریت قانون ہے ۔ اگلا نشانہ این آر سی اور یکساں سیول کوڈ ہے۔ وزارت داخلہ کے دستاویز میں این پی آر کو این آر سی کی سمت پہلا قدم قرار دیا گیا۔ عوام آخر کس پر بھروسہ کریں۔ امیت شاہ کے بیان پر یا پھر ہوم منسٹر کے دستاویز پر ؟ ڈسمبر میں جھارکھنڈ کی انتخابی مہم میں امیت شاہ نے 2024 لوک سبھا چناؤ سے قبل ملک بھر میں این آر سی پر عمل آوری کا اعلان کیا تھا ۔ مودی نے کہا کہ دوسری میعاد کے ابتدائی 6 ماہ میں حکومت نے فیصلوں کی سنچری بنائی ہے ۔ ابھی تو یہ آغاز ہے ۔ مودی کا یہ بیان ایجنڈہ کی تیزی سے تکمیل کی سمت اشارہ ہے۔ دہلی کے نتائج دراصل بھارت میں ہندوستان کی جیت ہے جو مختلف مذاہب، تہذیب اور زبانوں کا گلدستہ ہے۔

ملک میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف مختلف ریاستوں میں قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں تلنگانہ کی کے سی آر حکومت نے شہریت قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ خود کو سیکولرازم کے علمبردار قرار دینے والے کے سی آر کی جانب سے اسمبلی اجلاس کی طلبی ابھی باقی ہے تو دوسری طرف چیف سکریٹری کے ذریعہ یکم اپریل سے مردم شماری کے آغاز کے احکامات جاری کئے گئے ۔ مردم شماری دراصل مرکز کی این پی آر کا حصہ ہے لیکن بڑی چالاکی سے کے سی آر حکومت نے احکامات میں این پی آر کا ذکر نہیں کیا۔ این پی آر کا نام لئے بغیر مرکزی حکومت کی مدد کی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکم اپریل کے لئے کافی وقت ہے لیکن احکامات کی اجرائی میں عجلت کیوں کی گئی ۔ دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پاس سرخرو ہونے کیلئے کے سی آر بے چین دکھائی دے رہے ہیں۔ پنچایت سے لے کر اسمبلی تک اکثریت کے باوجود کے سی آر آخر کس بات پر بی جے پی سے خوفزدہ ہیں۔ این آر سی اور این پی آر کے مسئلہ پر کے سی آر کو واضح موقف کا اعلان کرنا چاہئے ۔ کب تک درمیانی موقف کے ذریعہ مسلم اقلیت کو گمراہ کیا جائے گا ۔ شہریوں کے قومی رجسٹر کی تیاری کے سلسلہ میں انہیں دیگر ریاستوں کے موقف کا انتظار کرنا چاہئے تھا ۔ مودی اور امیت شاہ کی ریاست گجرات میں ابھی تک این پی آر کے احکامات جاری نہیں کئے گئے لیکن کے سی آر ملک میں بی جے پی ریاستوں پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ مرکز سے آخر کونسی رعایتیں حاصل کرنا کے سی آر کا مقصد ہے ۔ ریاست کے لئے یا پھر خاندان کے لئے کیا مسائل ہیں جن کی یکسوئی مرکز سے ممکن ہے ۔ کے سی آر کی اس چالاکی کے باوجود سیکولر اور مسلم جماعتوں کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں بیرونی سفیروں کی دوسری ٹیم کو تفریح کیلئے لے جایا گیا ۔ سب سیکوریٹی اور خوف کے سایہ میں بیرونی سفراء نے وادی کا دورہ کرتے ہوئے صورتحال کو قابو میں بتایا۔ اس سے قبل بھی بعص ممالک کے سفیروں کو کشمیر کا دورہ کرایا گیا تھا۔ فوج اور نیم فوجی دستوں کی نگرانی میں ہر چیز قابو میں دکھائی دیتی ہے۔ اگر سیکوریٹی کے گھیرے سے باہر نکلتے تو پتہ چلتا کہ کشمیر کی حقیقی صورتحال کیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے عوامی قائدین نظربند ہیں اور عوام پر مختلف تحدیدات برقرار ہیں۔ اس کے باوجود حالات معمول پر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ اگر واقعی حالات معمول پر ہیں تو پھر قائدین کی نظربندی اور تحدیدات کیوں ؟ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی کی صحت بگڑنے کی اطلاع پر وادی میں انٹرنیٹ بند کردیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص کی صحت بگڑنے پر حکومت کو وادی میں حالات بگڑنے کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے ، اس کے باوجود حالات کے معمول پر ہونے کا دعویٰ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟ مسلمانوں اور مسلم اداروں کے خلاف مہم جاری رکھتے ہوئے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کی گنگوتری قرار دیا۔ گری راج سنگھ نے شائد ہی تحریک آزادی کو دیکھا یا کم از کم سنا بھی نہیں ہوگا ورنہ وہ اس طرح کا بیان دینے کی جرات نہ کرتے۔ تحریک آزادی میں علماء کی حصہ داری اور قربانیوں کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی لیکن گری راج سنگھ جیسے قائدین کے ذریعہ گھٹیا بیانات جاری کئے جارہے ہیں تاکہ ملک کی آزادی میں علمائے اکرام کے رول نظر انداز کیا جائے ۔ دیوبند کے بارے میں بیان دینے سے پہلے گری راج سنگھ آزادی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بہتر رہے گا ۔ یہ زمین دہشت گردی کی نہیں بلکہ شہیدوں کی گنگوتری ہے۔ ممتاز شاعر افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجہ میں