یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے (آیاصوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق لکھی گئی ایک تاثراتی تحریر) تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی

,

   

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

(آیاصوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق لکھی گئی ایک تاثراتی تحریر)

               تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی

       مشرق و مغرب اورشمال وجنوب میں مسائل سے گھری ہوئی اور پریشانیوں اورکلفتوں سے جھوجھتی ہوئی ملت اسلامیہ کے لیے 24؍جولائی کی تاریخ اور جمعہ کا دن پیام مسرت لے کر آیا،مسجد آیا صوفیہ میں86؍برس کے بعد پہلا جمعہ لاکھوں افراد کی موجودگی میں ادا کیا گیا،سورہ فتح کی پر اثر،بامعنی اور روح پرور آیات کےجلومیں ترک قوم نے ﷲ پاک کی کبریائی اورعظمت کے ترانے گنگنائے،اور سوپر پاور طاقتوں سمیت دنیا کے تمام ملکوں اورقوموں کویہ پیغام دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور یہ کہ غلبہ توبس ﷲ،اس کے پیغمبر اور اہل ایمان کے لیے ہے،(وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُوَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن)جمعہ کی نماز مسجد آیا صوفیہ میں ادا کی جارہی تھی لیکن ساری دنیا کے مسلمان ان روح پرور مناظر کو موبائیل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھ کر دنیا کے کونے کونے میں مسرورہو رہے تھے۔ آیاصوفیہ جوزمانے تک چرچ رہا،جہاں سے تثلیث کا عقیدہ پھیلایا جاتارہا،جہاں ’’کفّارے‘‘ کے نام پر گناہ اور نافرمانی کے چوردروازے کھولے جاتے رہے،جہاں توحید کے صاف شفاف عقیدےمیں’’ابنیت‘‘ کی آمیزش کی جاتی رہی،1453ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کردیا،اوروہاں سے پانچوں وقت دن کے اجالے اوررات کی تاریکی میں ﷲ پاک کی وحدانیت،اسلام کی حقانیت اور آخری پیغمبر کی عظمت کااعلان ہونے لگا۔ پھر منظرنامہ بدلا،غیروں کی دشمنی اوراپنوں کی بے وفائی نے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ کاتخت پلٹ دیا اور 24؍جولائی 1923ء کو معاہدہ لوزان کے تحت ترکی کوخلافت عثمانیہ کے مرکز سے بدل کر جمہوریہ ترکی بنادیاگیا،اور ایسے لوگ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے یا بٹھادیئےگئے جن کے ضمیر و خمیر میں آزادخیالی اور مذہب بیزاری بھری ہوئی تھی،اس تبدیلی نے پورے ملک کانقشہ بدل دیا،الحاد کی لہرآئی،آزادخیالی نے ہرطرف چھاؤنی چھائی، عورتوں سے نقاب اور مردوں سے غیرت چھینی گئی،اور مذہب کی جڑوں پر تیشہ چلادیا گیا،اسی دور میں آیا صوفیہ کی مسجدیت کوختم کیا گیا،اسے میوزیم کی شکل دے دی گئی،دن گذرتے گئے، سال بیتتے گئے اور آیاصوفیہ کےدرودیوارسجدوں کے لیے ترستے رہے، وہاں کی فضائیں حسن منظرکے باوجود اداس رہیں کہ نہ اذان کی گونج تھی اور نہ بیخودی کے قیام و قعود،رکوع و سجود،پھراس ﷲ کی رحمت جوش میں آئی جس کی شان مردہ زمین کو بارش کے ذریعہ زندگی بخشنااور مرجھائے ہوئے پودوں کو تازگی عطاکرناہے،وہی ترکی جہاں مذہب کو اس کی بنیادوں سمیت اکھاڑ پھینکنے کی محنت زوروشورکے ساتھ کی گئی تھی،اسلام کی طرف لوٹنے لگا،الحاد و دہریت کے سوکھے اوربے ثمر درخت مرجھانےلگے ،آزاد خیالی اورلبرلزم کے ملمع شدہ چہرے سے آب ورنگ اترنے لگا،لوگوں نے محسوس کیا کہ جسے وہ محبوب دل نواز او ر بت طنّازخیال کیے ہوئے تھے،اور جس کی زلف عنبر شمامہ کے عاشق و مجنوں بنے ہوئے تھے،اس کاحسن و جمال اصلی نہیں جعلی ہے، اس کی ادامحبوبانہ نہیں رقیبانہ ہے،اور اس کی چمک دمک مشاطہ ٔ قدرت کے دست سخاوت کی فیاضی نہیں مصنوعی رنگوں کی مہربانی ہے

؎

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

درد مندان ملّت کی زیر زمین محنت، ﷲ ﷲ کرنے والوں کے گرم آنسو اورگریہ ٔشبانہ نے ترکی کے تخت اقتدار تک ان لوگوں کو پہنچایا جو سوز دروں اور جذب اندروں کے حامل تھے،جن میں چیتے کا جگر اور شاہین کی بلند پروازی تھی،جن کی آنکھوں میں حیا کاسرمایہ ،دل میں غیرت کاخزانہ اور لبوں پر عظمت دین کاترانہ تھا، یہ لوگ بڑھے توبڑھتے چلے گئے،انصاف نے انہیں اوپراٹھایا،علم نے انہیں عظمت بخشی، روحانیت نے ان کے قدم جمائے، غیرت نے انہیں سہارادیا،اور سب سے بڑھ کر مالک و مختارِ کُل نے انہیں حسن نیت اورحسن عمل کی جزانصیب کی،اور دنیا نے ایک مرتبہ پھراس ازلی و ابدلی قانون قدرت کو چشم سر سے دیکھا کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْن(بے شک اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا)ور اَنِّیْ لَا ٓ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی(میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل رائیگاں جانے نہیں دوں گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت) اور یہ بھی کہ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ (اور ہم پر اہل ایمان کی مدد لازم ہے۔)

ترکی کتنا بدلا ؟صنعت و حرفت نے کیسی ترقی کی؟ کمال اتاترک کے لادینی نظام کے نتیجے میں ترکی کے حصے میں جو زوال آیا کس قدر محنت اورمشقت کےبعد اسے عروج سے بدلا گیا؟ یہ سب ایک تفصیلی مضمون کاموضوع ہے،یہاں تو بس اتناعرض کرنا ہے کہ مسلسل محنت،پر خلوص جذبہ،دیانت و امانت اوراسلام کے صحیح اور سچے اصولوں کی پاسداری نے ترکی کو ایسی اور اتنی جلا بخشی کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے دوش بدوش کھڑاہوگیا،اور ایک مرتبہ پھر عالم اسلامی کے لیے امیدوں کامرکز اور تمناؤں کا محور بن گیا، اور اس کے صدر حافظ رجب طیب اردگان کو عالم اسلام کے مسلمان ترکی کے صدر نہیں عالم اسلام کے قائد و رہنما کے روپ میں دیکھنے لگے،چند دن پہلے اسی مرد غیور نے ترکی کے عدالتی فیصلے کے بعد جب یہ اعلان کیا کہ آیا صوفیہ اب میوزم نہیں مسجد ہے، یہاں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جائیں گی ،اورﷲ پاک کی بڑائی اور کبریائی کا یہاں سے اعلان ہوگا تو عالم کفر پر سکتہ طاری ہوگیا،یہ اعلان نہیں تھا برق آسمانی تھی،جس نے خرمن کفر میں آگ لگادی ،آزا د خیال طبقہ جسے آج کی زبان میں لبرلزکہاجاتاہے، ایسا بے قرار ہوا جیسے سانپ کی دم پر پیرپڑنے سے سانپ بے قرار ہوجاتاہے،حریت فکر و نظر کی دہائیاں دی جانے لگیں ، انسانیت کی گردانیں پڑھی جانےلگیں،اسلام کے قانون عدل کے حوالے دیئے گئے،میزان عقل و خرد پر تول کر اس اقدام کوغلط،غیر مہذب اور وحشیانہ قراردیاگیا،لیکن سلام ہومردغیور و جسور پر،کہ اس کی بلند و بالا جبیں پر نہ تو کوئی شکن آئی اور نہ اس کے ارادے میں کوئی کمزوری،اور جب کچھ ممالک کی طرف سے کھلے یا چھپے اس پر تنقید کی گئی تو اس نے ایسا جرأت مندانہ جواب دیا جو تاریخ عالم میں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔’’ہمارے فیصلے کے بعد یونا ن آرام سے بیٹھ نہیں پارہاہے، وہ اپنی کمیں گاہ سے نکل کر ہم پر گولیاں برسارہاہے،ہمارا ان سے یہ کہنا ہے کہ ترکی کو تم چلارہے ہویا ہم ؟ہمیں کوئی فیصلہ لینے کے لیے کسی سے اجاز ت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،ہم اپنے فیصلے لینے کے لیے آزاد اورخود مختار ہیں،تم اپنے آپ کوتھوڑا بہتر بناؤ ،اپنی حدوں کوپہچانواگر تم اپنی حدوں کو نہیں پہچانو گے توترکی جو کرے گا وہ بالکل واضح ہے‘‘یہ وہ دو ٹوک او ر جرأت مندانہ جواب ہے جس نے ایک مرتبہ پھرعالم کفر کو احساس دلادیا کہ جس کاسامنا ہے وہ ’’ترک ناداں‘‘نہیں’’تر ک دانا‘‘ہے اور اب ترکی ’’مرد بیمار‘‘ نہیں رہا،طاقتور اور توانا بن چکا ہے،اور اس کے پاس دنیا کی وہ طاقت اور ایسی قوّت ہے جو عالم کفرکے پاس نہیں ہے یعنی ایمان ویقین کی طاقت، اعتماد و توکل علی اللہ کی قوّت!

نماز جمعہ پڑھ کر آیا،تو موبائل اٹھالیا،آیا صوفیہ میں جمعہ کی نماز کی تیاریاں ہورہی تھیں،پھر تلاوت قرآن کا سلسلہ جاری ہوا،آیا صوفیہ میں پاک پروردگار کا باعظمت اور پرشکوہ کلام گونجنے لگا،قاری کی آواز میں بڑا سوز و درد تھا، اور اس سے بڑھ کر کلام الٰہی کی تاثیر ، آنکھیں چھلک پڑیں، دل احساس شکر سے لبریز ہوگیا، پاک پروردگار ! تونے ہماری زندگی میں یہ وقت بھی دکھایا کہ غیرت مندمسلمان آزاد خیالوں اور دنیائے صہیونیت کے نمائندوں پر غالب آئے، حق آیااور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹ جانے ہی کے لئے ہے(جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )قاری کی تلاوت جاری تھی اور میرا ذہن ماضی کے جھرونکوں میں جھانک رہا تھا،کئی صدیاں پہلے ایک عظیم فاتح نے جو محض چوبیس برس کاتھا، اور اسے سلطنت عثمانیہ کے تخت پر بیٹھے ہوئے دو سال ہی گذرے تھے ،اپنے عزم وعزیمت اور جذبہ شجاعت کے زور پر قسطنطنیہ (اب استنبول) کو فتح کرتا ہے اور اس بشارت نبوی کا مصداق بنتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ قسطنطنیہ فتح ہوگا اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا اور اس لشکر کا امیر بہترین امیرہوگا(لتفتحن القسطنطنیۃ فلنعم الامیر امیرھا ولنعم الجیش ذالک الجیش)فتح کے بعدفاتحین کی روش کے بر خلاف یہ بہادر اور شیر دل انسان اعلان کرتا ہے کہ میرے لشکر کے لوگو! تم بشارت نبوی کے مصداق بن چکے ہو، نرم دلی اختیار کرو اور قتل و غارت گری سے بچو، عام شہریوں میں سے نہ تو کسی کو قتل کرو،اور نہ کسی کی مذہبی عبادت گاہ کو نقصان پہونچائو، قسطنطنیہ کے شہری جان بچانے کی خاطر کلیساؤں میں چھپ گئے تھے اور ان کی بڑی تعداد آیا صوفیہ میں پناہ لئے ہوئے تھی،سلطان محمد فاتح نے آیا صوفیہ پہونچ کر سب کو امان دی ، راہبوں کی جاں بخشی کی اور یہ اعلان بھی کہ ہر ایک اپنے مذہب پر عمل کے لئے آزادہے،کیسا انصاف ہے یہ!کیسی رحمدلی اور مروت ہے یہ! سلطان محمد فاتح اور ان کے ساتھیوں کے کارنامے پر غور کررہا تھا کہ قاری نےسورۂ فتح کی یہ آیت پڑھی: وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْرًا حَکِیْمًا (آسمانوں اور زمینوں کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ زبردست ہے حکمت والا) دل سے آواز آئی: سچا ہے میرا رب، سچا ہے اس کا پاک کلام ،محمد فاتح کا لشکر اللہ ہی کا تو لشکر ہے،اور آج جامع آیا صوفیہ کی صف میں نگاہ جھکائے، آنکھوں میں آنسو لئے یہ جوشخص بیٹھا ہے جسے دنیا رجب طیب اردگان کہتی ہے ،یہ بھی تو اللہ کا سپاہی ہے،دیندار، وفا شعار، دشمنان دین کے لئے سیف ذوالفقار، خدا اسے صحت و عافیت کے ساتھ دیر تک سلامت رکھے کہ وہ شب تاریک میں قندیل ربّانی ہے،اوراسلامیان عالم کے قافلے کا حدی خواں! اردگان نہ تو خلیفہ راشد ہے اور نہ قرن اول کا مسلمان! نہ امام معصوم ہے اورنہ امیرالمؤمنین،مگر پھر بھی وہ ایسا ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں،مسلم ملکوں کے حکمرانوں میں ہے کوئی ایسا باہمت جو یہ اعلان کرے کہ اب ہمارے قدم مسجد اقصیٰ کی طرف بڑھیں گے اور ہم اسے آزاد کرائیں گے،ہے کوئی ایسا جواں مرد جواسرائیل کو علی الاعلان دہشت گردکہے،ہے کسی میں ایسی خودی کہ وہ لاکھوں کے مجمع میں کہے: ’’ہم نے بڑے زخم اٹھائے، ہم نے بڑے ستم جھیلے، مگر ہم نے صبرکا توشہ ساتھ لیا، نہ غمزدہ ہوئے اور نہ مایوس ، رحمان و رحیم رب سے رشتہ جوڑا، اس سے آس لگائی، ہمیں معلوم ہے کہ تقدیر اور قسمت سے اوپر بھی ایک ذات ہے اور وہ اللہ کی ہے،ظلم و ستم اور رنج و الم کے باوجود ہم نہیں ہارے، ہم نے مصلوں پر پناہ لی، دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ، اور پا ک پروردگار سے التجا کواپنےسفر کا ساتھی بنایا‘‘۔

آیا صوفیہ کی طرف لوٹ آئیے،قاری بدل چکا ہے، سر پر سفید براق ترکی کلاہ رکھے ہوئے ایک سفید ریش قاری محوتلاوت ہے ، آیا صوفیہ اور اس کے اردگرد موجود کئی لاکھ افراد گوش برآواز ہیں، ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ابھی ابھی یہ کلام ربانی فضائے آسمانی سے نازل ہورہا ہے ، لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّوٌْیَا بِالْحَقِّ(اللہ پاک نے اپنے پیغمبر کا خواب سچ کردکھایا)ہاں ہاں! پیغمبر ﷺ کا خواب سچ کردکھایا گیاتھا کہ مکہ جہاں سے بے سروسامانی کے عالم میں اہل ایمان نکالے گئے تھے ، وہیں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہوئے، سرکش سرنگوں ہوئے، خون کے پیاسے پناہ ڈھونڈنےلگے،سرداری کا زعم رکھنے والوں کے کس بل نکل گئے ، خانہ کعبہ بتوں سے پاک کردیا گیا، اللہ کے گھر میں اللہ کی کبریائی کا نغمہ گونجا، جس پاک پروردگار نے اپنے محبوب پیغمبر کو خواب دکھایا تھا پھر اس کی تعبیر بھی ظاہرکردی،اسی اللہ نے پیغمبر کے چند امیتوں کو بھی یہ خواب دکھایا تھا کہ تم ایمان ویقین کی راہ پر چل کر دشمنان دین اور آزاد خیال اور مذہب بیزاری کی راہ پر چلنے والے لوگوں پر غالب آؤگے ، اور ایمان، قرآن، اور نماز و اذان سے بیر رکھنے والے تمہارے ہاتھوں ذلیل ہوں گے، رسوا ہوں گے اور بالاآخر وہ دن آگیا 24؍جولائی 2020ء کو آیا صوفیہ میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی گئی، لبرلزم اور مذہب بیزاروں پر جنازہ پڑھا گیا،خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا،آج ترکی میں ملت کی آستین کے بت گرائے جارہے ہیں اوراعلان کیاجارہا ہے کہ

؂

یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

لیجئے اذان کا ذکر آیا اور جامع آیا صوفیہ کے درودیوار اذان کی آواز سے گونجنے لگے ، خطیب پرشکوہ منبر پر جلوہ افروز ہے اس کے اوپر فتح کی علامت کے طور پردوجھنڈےلہرارہےہیں،ہاتھ میں عصا کے بجائے تلوار ہے،جو اس بات کا اظہار ہے کہ دین کے نفاذ کے لئے غلبہ اورقوت کی ضرورت ہے، عافیت گاہوں میں بیٹھ کر باتیں بنانے سے یا صرف خانقاہوں کے گوشوں میں ضرب الااللہ بلند کرنے سے بات نہیں بنے گی، بات تو اس وقت بنے گی جب خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات کے ساتھ وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل کافریضہ انجام دیاجائے گا،اور خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی جائے گی،ترکی نے اس راز کو پالیا ہے،اس نے دین و دنیا دونوں پر توجہ دی،اس نے روحانیت کے کوچوں کو بھی آباد رکھا اورمادی اسباب و وسائل سے بھی اپنے آپ کو لیس کیا،اور شاہراہ عزم و عزیمت پر اس طور سے چلااور چلتا رہا کہ کامیابی اور سرخروئی نے آگے بڑھ کر اس کے قدم چومے اور اس کی بلائیں لیں، ترکی نے اپنے عمل و اقدام سے اپنے جذبے اور شعوروفکر و نظر سے یہ بات دنیا کو بتادی ہے کہ وہ کمال اتاترک کی راہ کا راہی نہیں، سلطان محمد فاتح کی روایات کا امین ہے ۔

خطبہ ہوا، نماز ادا کی گئی اور پھر اردگان نے میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے وہ کہہ دیا جس کی توقع دنیا کو نہیں تھی اور وہ بات تھی مسجد اقصیٰ کی آزادی کی، عالم کفر جو آیا صوفیہ کے مسجد بنائے جانے پر ماتم کناں تھا، اس کے لئے یہ بات صاعقہ آسمانی ثابت ہوئی، صہیونی اور یہودی لابی کے لئے یہ بات کس قدر غیظ و غضب کا سبب ہے،ظاہر ہے مگر اس سب کا جواب قرآن کی زبان میں بس یہ ہے کہ قُلْ مُوْتُوْابِغَیْظِکُمْْ (اپنے غیظ و غضب کی شدت سے مرجاؤ) اور مسلمانوں کے لئے تسلی ان الفاظ میں کہ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّوْمِنِیْنَ (اللہ ایمان والوں کے سینوں کو ٹھنڈک بخشے گا)کیسے موقع سے اقبال یاد آگئے

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے