ندوستانی ائین کے ارٹیکل35اے جموں کشمیر کے قانون سازوں کو ریاست کے ”مستقل مکینوں“کو بااختیار بناتا ہے اور ان کے خصوصی حقوق اورمرعات کی بھی حفاظت کرتا ہے۔
مذکورہ قانون کو کو ارٹیکل368کے تحت ایک پارلیمانی ترمیم کے بجائے ائین میں 1954کے ایک صدراتی حکم نامہ کے ذریعہ شامل کیاگیا۔
ارٹیکل 35اے دراصل370ارٹیکل کی بنیاد پر ہے جوہندوستانی ائین میں عارضی او رعبوری طور پر شامل تھی‘جس جموں کشمیر کے مقبول لیڈر شیخ عبداللہ اور اس وقت مرکز کی قیادت کررہے وزیراعطم جواہرلال نہرو کے درمیان میں 1949میں ہوئی بات چیت کا ایک نتیجہ تھا۔
ارٹیکل370جموں کشمیر کو یہ خصوصی موقف کی گیارنٹی دیتا ہے جس سے مرکزی حکومت تین علاقوں میں قانونی طاقت کے استعمال تک محدود ہے‘ ڈیفنس‘ خارجی امور اور کمیونکشن جس کے نتیجے میں جموں کشمیر نے 1956میں اپنے دستور قائم کیا
۔جموں کشمیر دستور میں مستقبل رہائش سے متعلق قانون کوبیسوں صدی کی ابتداء میں ڈوگرا رول کے دوران مہاراجہ ہری سنگھ کے متعارف کردہ قانون سے کھینچا گیا ہے۔ جموں کشمیر 1947تک بھی ایک خود مختار مملکت تھی جب ائی او اے کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں اس کو شامل کیاگیا۔
جموں کشمیر کے مستقبل رہائشی قانون کی بنیاد مہاراجہ ہری سنگھ کے دو اعلامیہ جو 1927اور1932میں جاری کئے گئے اس کے تحت تھا‘جس میں ریاستی کی اہمیت اور اس کے حقوق کی وضاحت کی گئی۔
مذکورہ ڈوگرا قانون برطانیہ حکومت کے دوران پڑوس ریاست پنجاب سے لوگوں کی منتقلی کو روکنے کے متعارف کئے گئے تھے۔جموں کشمیر مستقل مکینوں کی وضاحت کچھ اس طرح کرتا ہے کہ ”تمام لوگ جو 1911سے قبل پیدا ہوئے یا یہاں پر بسے یا پھرقانونی طور سے غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے
اور ریاست میں اس تاریخ میں کم سے کم دس سال قبل مقیم ہیں“۔وہ تمام جموں کشمیر کے تارکین وطن جس میں پاکستان منتقل ہونے والے بھی شامل ہیں‘ کو ریاست کا حصہ مانا جائے گا۔ہجرت کرنے والے تارکین وطن کی دونسلوں تک ریاست کا حصہ مانا جائے گا۔مذکورہ قانون باہری لوگوں کو ریاست میں مستقل طور پر رہنے‘ غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے‘ سرکاری ملازمتوں‘اسکالر شپ او رامداد سے روکتا ہے۔
تاہم مذکورہ قانون نے جموں کشمیر کی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک رواں رکھا ہے۔ ایسی خواتین کو غیر مستقبل رہائشی سے شادی کرتی ہیں تو انہیں ریاست کا حصہ مانے جانے والے حقوق سے محروم کردیاجاتا ہے۔
مگر 2002اکٹوبر کے ایک تاریخ فیصلہ جو جموں کشمیر ہائی کورٹ نے سنایاتھا اس میں غیر کشمیری سے شادی کرنے والی عورت کے حق کو برقرار کھا۔ تاہم مذکورہ خاتون کے بچوں کو یہ حقوق اب تک نہیں ملے۔
اس وقت سے ارٹیکل35اے ہمیشہ عوامی بحث اور تنازعہ کا شکار جب سال2014میں اس کو سپریم کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیالنج کیاگیاتھا کہ ارٹیکل368کے تحت ترمیم کے ذریعہ دستور میں شامل نہیں کیاگیا اور نہ ہی ایوان پارلیمنٹ میں اس کو پیش کیاگیاتھا۔اس کو ایک کشمیری خاتون نے بھی چیالنج کیاتھا جس نے ’باہری‘ سے شادی کی نے بحث کی کہ ریاست کے مستقبل رہائشی قانون جو35اے سے آیاہے‘ نے اس کے بچوں کو حق رائے دہی سے محروم کردیاہے۔ تاحال یہ معاملہ فیصلے کا منتظر ہے‘مذکورہ حکومت کیا پارلیمنٹ میں ارٹیکل35اے کو ختم کرنے کا بل لائے گی۔
جب سے پارلیمنٹ کے منشور او رالیکشن مہم میں اس کو ہٹانے کی خود سے بات کہی گئی ہے‘ یہا ں پر یہ قیا س لگایاجارہا ہے کہ حکومت جاریہ پارلیمنٹ اجلاس کے دوران بل پیش کرسکتی ہے۔
کشمیر کی تمام سیاسی قیادتیں ارٹیکل35اے کوہٹانے کے خلاف ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ غیر مقیم مکینوں کا ریاست میں داخل ہوجائے گا جو ہندوستان کی واحد مسلم اکثریت والی ریاست کو جغرافیائی تبدیلی لائے گا۔ تاہم پچھلے 70سالوں میں کشمیر کا مذہبی جغرافیہ تبدیل نہیں ہوا جیسا ہندو اکثریت والا جموں‘ بدھسٹ کا لداخ وادی میں جائیدادیں قانونی طریقے سے خرید سکتے ہیں