اویسی نے اس بات کی بھی جانکاردی کہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنا اظہار یگانگت دیکھنے کے لئے لکشمی پور کھیری ضلع کے دورے کا منصوبہ رکھتے ہیں
حیدرآباد۔اے ائی ایم ائی ایم صدر اسدالدین اویسی نے اترپردیش کے لکشمی پور کھیری ضلع کے تشدد کو ”ریاست کی نگرانی میں ہونا والا تشدد“ قراردیا ہے اور شدید طور سے مرکز او راترپردیش حکومت کو اس واقعہ کے پیش نظر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں اٹھ لوگ بشمول چار کسان ہلاک ہوگئے ہیں۔
اے این ائی سے بات کرتے ہوئے اویسی نے کہاکہ ”یہ ریاست کی نگرانی میں ہونے والا تشدد ہے۔
دونو ں مرکزی او راترپردیش حکومت اس (لکشمی پور) واقعہ کے ذمہ دار ہیں کیونکہ کچھ دن قبل وزرات داخلہ مملکتی امور نے بھڑکاؤ تقریر کی تھی کہ دو منٹ میں سب کچھ (کسانوں کا احتجاج)ختم کردیں گے‘ جو اس واقعہ کی وجہہ بنا ہے۔
مذکورہ لیڈر نے کہاکہ ”ہم اس معاملے میں صاف او رشفاف تحقیقات کی مانگ کرتے ہیں۔ مذکورہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے برسرخدمت جج کی نگرانی میں اس واقعہ کے تحقیقات کی نگرانی ہونی چاہئے“۔
اویسی نے اس بات کی بھی جانکاردی کہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنا اظہار یگانگت دیکھانے کے لئے لکشمی پور کھیری ضلع کے دورے کا منصوبہ رکھتے ہیں ”جن کا قتل مرکزی مملکتی وزیر کے بیٹے نے کیاہے“۔
اویسی نے اے این ائی کو بتایاکہ”مرکزی وزیرکے بیٹے نے جن لوگوں کاقتل کا کیاہے ان کے ساتھ اظہار یگانگت کے لئے بہت جلد میں لکشمی پور جاؤں گا۔
یہ ایک گھناؤنہ جرم ہے‘ اب وقت آگیاہے کہ مودی کی زیر قیادت حکومت تین زراعی قوانین سے دستبرداری اختیار کرکے اور اس منسٹر کو ہٹائے“۔
درایں اثناء اترپردیش پولیس پنجاب منسٹرس اور اراکین اسمبلی جو ڈپٹی چیف منسٹر اور ہوم منسٹر سکجیندر سنگھ رندھاوا کی نگرانی میں آنے والے وفد کو سہارنپور میں تحویل میں لے لیا‘ پولیس کے ایک اہلکار نے اس بات کی جانکاری دی ہے۔
مذکورہ ڈپٹی چیف منسٹر کی مانگ تھی کہ خاطیوں کی فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
سموکیت کسان مورچہ(ایس کے ایم) مختلف کسا ن یونینوں کا اجتماعی پلیٹ فارم نے اتوار کے روز ایک بیان واقعہ کے متعلق جاری کرتے ہوئے دعو ی کیاکہ ہلاک ہونے والے چار کسانوں میں سے ایک مبینہ طور پرایک کسان کو مرکزی مملکتی وزیر اجئے مشرا تانی کے بیٹے اشیش مشرا نے گولی مار کر ہلاک کیاجبکہ دیگر کسانوں کو گاڑیوں کے قافلے نے روند دیاہے۔
تاہم اشیش مشرا نے ایس کے ایم کے الزامات کی تردید کی اورکہاکہ جہاں پر واقعہ پیش آیاہے وہاں پر وہ موجود ہی نہیں تھے۔