ایودھیا نظرثانی دراخواست دائر‘ کہاکہ عدالت نے غیر قانونی سرگرمیوں کو انعام سے نوازا گیاہے

,

   

اس میں کہاگیا ہے کہ ”انصاف اور جوابدہی کے بغیرامن کا قیام ممکن نہیں ہے“ اور یہ کہ مذکورہ ”عدالت نے 1934‘1949‘اور1992میں جرم انجام دینے والوں کو ہندو فریقین کو مالکانہ حق دیکر انعام سے نوازا ہے‘جبکہ اسکو پہلے سے ہی غیرقانونی اقدام قراردیا گیا ہے“

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ایودھیا میں بابری مسجد او ررام جنم بھومی کے متنازعہ مالکانہ حق کے معاملہ میں سنائے گئے فیصلے کے تین ہفتوں بعد صدر اترپردیش جمعیت علمائے ہند مولانا سید اشہد راشدی پیر کے روز عدالت عظمی سے رجوع ہوئے ہیں‘

اور انہوں نے فیصلہ پر نظرثانی کی مانگ کی ہے‘مولانا نے کہاکہ ہندوفریقین کی جانب سے انجام دئے گئے مذکورہ ”جرائم“ پر”انعام“ سے نوازگیاہے۔

ایک درخواست میں راشدی نے کہاکہ ”مکمل انصاف ہوگا جب مرکز اور حکومت اترپردیش کو ہدایت دی جائے کہ وہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر عمل میں لائے“۔

پانچ رکنی دستوری بنچ نے 9نومبر کے روز متفقہ طور پر تمام معاملے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تمام متنازعہ اراضی اس ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا

جس کے سپرد رام مندر کی تعمیر کی ذمہ داری تفویض کی جائے گی اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑ اراضی ”ایودھیا میں کسی موضوع مقام پر“ فراہم کرنے کے بھی احکامات جاری کئے تاکہ وہاں پر مسلم مسجد کی تعمیرکرسکیں۔

نظرثانی کے درخواست گذار راشیدی نے سپریم کورٹ میں کہاکہ ”انصاف اور جوابدہی کے بغیرامن کا قیام ممکن نہیں ہے“ اور یہ کہ مذکورہ ”عدالت نے 1934‘1949‘اور1992میں جرم انجام دینے والوں کو ہندو فریقین کو مالکانہ حق دیکر انعام سے نوازا ہے‘جبکہ اسکو پہلے سے ہی غیرقانونی اقدام قراردیا گیا ہے“۔

مذکورہ درخواست ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے ذریعہ داخل کی‘ جنھوں نے کہاکہ ”بابری مسجد کو ختم کرنے کے لئے ایک عملی طور پر ایک حکم دیدیا ہے اور کہے گئے مقام پر رام مندر کی تعمیرکی اجازت دیدی گئی ہے‘

کیونکہ اگر بابری مسجد6ڈسمبر1992کو غیرقانونی طریقے سے منہدم نہیں کی گئی ہوتی‘ موجودہ حکم نامہ کے احکامات پر عمل آواری کی اس وقت ضروری ہوتی ہے جب مجوزہ مندر کسی مسجد کو مہندم کرکے تعمیر نہیں کی جاتی“۔

اس میں کہاگیا کہ مسلم فریقین ’متبادل پانچ ایکڑ اراضی پر’نہ تو التجا کررہے ہیں اور نہ ہی نمازادا کریں گے“۔