مینگو میان آف انڈیا کلیم اللہ خان کا کارنامہ
محمد ریاض احمد
کیا آپ راکٹ میان آف انڈیا کو جانتے ہیں؟ کیا آپ کو میزائل میان آف انڈیا کے بارے میں معلوم ہے؟ کیا آپ مینگو میان آف انڈیا سے متعلق کچھ معلومات رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ نصیب الدولہ امیر وطن شیرِ میسور میر فتح علی بہادر ٹیپو سلطان کو راکٹ میان آف انڈیا کہا جاتا ہے۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے 30 نومبر 1991 کو بنگلور میں ٹیپو سلطان شہید یادگار لیکچر دیتے ہوئے حضرت ٹیپو سلطانؒ شہید کو دنیا کے پہلے جنگی راکٹ کے خالق قرار دیا۔ ممتاز مؤرخ ڈاکٹر دلاری قریشی کے مطابق ان راکٹوں میں سے دو راکٹس آج بھی لندن کے رائل آرٹیلری میوزیم میں نمائش کیلئے رکھی گئی ہیں۔
اب بات کرتے ہیں دوسرے سوال کی یعنی میزائل میان آف انڈیا کی، ہمارے ملک کے 11 ویں صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو میزائل میان آف انڈیا کہا جاتا ہے جنہوں نے ہندوستان کے میزائل اور خلائی پروگرام کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ انہوں نے ہندوستانیوں کو خواب دیکھنے اور اپنے خوابوں کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ہم نے آپ سے تیسرا سوال کیا تھا کہ مینگو میان آف انڈیا کون ہے ؟
اس سوال کا جواب ہم آپ کو ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کو بتانا چاہتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش کے ملیح آباد کے رہنے والے پدم شری کلیم اللہ خان کو مینگو میان آف انڈیا کہا جاتا ہے۔ ملک میں پھلوں کے بادشاہ ’ آم ‘ کی نت نئے انداز میں پیداوار کو یقینی بنانے والے کلیم اللہ خان کو 2008 میں یو پی اے کے دورِ حکومت کے دوران باوقار پدم شری اعزاز سے نوازا گیا۔ آپ نے آموں کی امرائی اور وہاں کے درختوں پر اُگنے والے آموں کی مٹھاس‘ ان کی خوشبؤ، اِن کے سائز اور رنگوں کے بارے میں ڈھیر ساری افسانوی کہانیاں‘ قصے ضرور سنے ہوں گے لیکن یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ تاریخ میں کسی شخص نے 120 سالہ بوڑھے درخت پر ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ آموں کی پوری 300 اقسام کی پیداوار کی ہے۔کلیم اللہ خان نے اُتر پردیش کے 120 سالہ قدیم آم کے درخت پر نہ صرف 300 انواع و اقسام کے آم اُگائے بلکہ ان آموں کو ملک کی مشہور و معروف ہستیوں سے موسوم کیا۔ جہاں تک ہندوستان میں آموں کی آمد کا سوال ہے موسم گرما میں آم کا سیزن شروع ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندوستان میں آم کی پیداوار سو دو سو یا تین سو سال سے نہیں کی جاتی بلکہ سرزمینِ ہند میں 5000 سال سے آموں کی پیداوار کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے ملک میں آم کو جہاں پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے وہیں تہذیبی و ثقافتی، مذہبی لحاظ سے بھی آم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ہندوستانی میٹھوں‘ مٹھائیوں‘ حلوؤں اور مُربہ‘ مشروبات‘ کھانوں اور سالنوں میں آم کا کبھی سالم تو کبھی آم چور تو کبھی سفوف کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔
ہم نے آموں کی کی اہمیت و اِفادیت پر غور و فکر کیا تب یہ خیال ہمارے ذہن میں آیا کہ حقیقت میں ’ آم ‘ کوئی ’ عام ‘ میوہ نہیں بلکہ بلا شبہ اسے سفارتی پھل بھی کہا جاسکتا ہے۔ دورِ قدیم خاص طور پر مغلیہ دور میں دوسرے ملکوں اور علاقوں کے سربراہوں سے تعلقات استوار کرنے، تعلقات کو خوشگوار بنانے کیلئے آم بطورِ تحفہ بھیجے جاتے تھے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغلیہ دور میں آم کو طاقت اور وقار کی ایک علامت تصور کیا جاتا رہا۔ آم‘ شاہجہاں، جہانگیر اور اورنگ زیبؒ کا پسندیدہ پھل رہا ہے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ 12 ویں صدی میں اپنی حکمرانی کے دوران اورنگ زیب عالمگیر ؒ نے آم کو کرنسی اور ساتھ ہی ایک سفارتی آلہ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہِ فارس شاہ عباس نے جب اپنے ’ شاہ ‘ ہونے کا اعلان کیا تب اورنگ زیبؒ نے انہیں اپنے قاصدوں کے ذریعہ بطورِ تحفہ آم بھیجے ۔ تاریخ کے اوراق میں یہ واقعہ بھی محفوظ ہے۔ بلقان کے بادشاہ نے اورنگ زیبؒ کے ساتھ معاہدۂ امن کے طور پر 200 اونٹ بھیجے جن پر خشک میوے اور انواع و اقسام کے آم لدے ہوئے تھے۔
ہندوستان میں آم نما تھرماس‘ شیشیاں اور مختلف قسم کے ظروف بنائے جاتے رہے جو سونا، قیمتی موتی و ہیرے جواہرات سے مُزین ہوتے۔ ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی بیرونی مہمانوں کو آم کے تحائف پیش کرتے یہاں تک کہ بیرونی دورہ کے موقع پر بھی اپنے ساتھ آم لے جاتے اور مختلف ممالک کے سربراہان کو تحفہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اگسٹ 1968 میں پاکستان کے وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے آموں کا ایک کریٹ چیرمین ماوزیڈانگ کی خدمت میں بطورِ تحفہ پیش کیا بعد میں الفریڈ مرک نے اپنی کتاب ” Mao’s Golden Mangoes and the Culture Revolution” میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق نے 1981 میں اندرا گاندھی کو آم کا تحفہ بھیجتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔ اسی طرح 2006 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دورہ کنندہ امریکی صدر جارج بش کی خدمت میں آم پیش کرکے امریکہ میں ہندوستانی آموں کے اکسپورٹ پر لگی پابندی کو برخواست کروایا تھا۔ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھی ہندوستانی عوام کیلئے تحفہ میں آم بھیج کر دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار بنائے تھے۔
بہر حال ہم بات کررہے تھے مینگو میان کلیم اللہ خان کی جنہوں نے ’ ٹائمز آف انڈیا ‘ کے مطابق120 سالہ قدیم درخت کو باغبانی کے شعبہ میں حیران کرنے والی چیز بنادیا۔ کلیم اللہ خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 17 سال کی عمر سے ہی کسی اور کام میں دلچسپی لینے کے درختوں میں دلچسپی لینی شروع کی اور درختوں میں آموں کے بشمول دوسرے میوؤں کی گرافٹنگ میں غیر معمولی مہارت حاصل کرلی۔ ہندوستان میں ویسے بھی بے شمار قسم کے آم پائے جاتے ہیں لیکن طوطا پری، لنگڑا، دسہری، فاضلی، چاوسا، سفیدہ، راتول، مالدا، حمایت وغیرہ کافی مشہور ہیں لیکن کلیم اللہ خان نے اپنے اُگائے گئے آموں کو ایشوریہ ( 1994 میں مس ورلڈ مقابلۂ حُسن جیتنے پر ایشوریہ رائے ) ، انارکلی، سچن تنڈولکر یہاں تک کہ مودی سے بھی موسوم کیا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان میں کم از کم 1500 اقسام کے آم پائے جاتے ہیں جن میں الفونس، بیگناپلی، بنگلورا، نیلم، بمبئی گرین، پہری، بادامی، امراپالی، رتنا، سندھو، ہیم ساگر، ملغوبہ، راجہ پوری، سورنا ریکھا، من کراد، سورنا بھومی، دومانی، چندرا کرن، ہمام بستہ، گلاب خاص، لال باغ، ہماچل اسپیشل، ملکہ، پن چرہ کلاسہ، سورنا موہن، کلکٹر، کلکٹرس چائس‘ وغیرہ وغیرہ۔ الفونس آم کو ہندوستان میں میٹھے آموں میں سب سے زیادہ میٹھا آم تصور کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ راسن پوری آم کو ہندوستان کا رانی آم کہا جاتا ہے یعنی” Queen Mango of India” کہا جاتا ہے۔ اس عام کی پیداوار کرناٹک میں ہوتی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ تاملناڈو کے کرشنا گیری کو ہندوستان میں آموں کا دارالحکومت کہا جاتا ہے جبکہ مغربی بنگال کے مالدہ کو Mango City کہا جاتا ہے ۔ یو پی کا ملیح آباد بھی آموں کیلئے اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں میاں ذاکی آم کی پیداوار ہوتی ہے ، ایک کلو گرام میاں ذاکی آم کی قیمت ڈھائی لاکھ تا دو لاکھ 70 ہزار روپئے ہوتی ہے۔ وہاں اس آم کے کسان درختوں کے قریب سخت ترین سیکورٹی بندوبست کرتے ہیں تاکہ کوئی آم چوری نہ کرسکے کیونکہ اوڈیشہ کی امرائی سے اس قسم کے آموں کا سرقہ ہوا تھا۔ آموں کی اہمیت اور دنیا بھر میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کم از کم 90 ملکوں میں آم کی پیداوار ہوتی ہے اور ہندوستان میں آموں کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی آم وٹامن اے ، وٹامن سی اور وٹامن ای سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میںANTI OXIDANTS پائے جاتے ہیں۔
چلیئے، اب چلتے ہیں ادب اور آم کے قریبی تعلقات کی طرف‘ ہمارے خیال میں اردو ادب کے فروغ میں آم کا بھی اہم حصہ ہے۔ اکثر شعراء چاہے وہ غالبؔ ہوں، علامہ اقبالؔ، اکبر الہ آبادیؔ ہوں یا موجودہ دور میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے نوجوان شعراء، پھلوں میں آم ان کی پہلی پسند رہی ہے چاہے وہ لنگڑا ہو، دسہری اور دوسہرا کیوں نہ ہو سُرخ، سردلی، تخمی، قلمی ، چاوسے، سفیدے، کھجری یا پھر فجری آم شعراء کا محبوب پھل رہا ہے۔ اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی نے تو ’’ آم نامہ ‘‘ ہی لکھ دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انھیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجئے
ساخر خیامی کی نظم’’ آموں کا سہرا ‘‘ کافی مقبول ہوئی تھی جس میں انہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کہا تھا:
خالق کو ہے مقصود کہ مخلوق مزہ لے
وہ چیز بنادی ہے کہ بوڑھا بھی چبالے