توبہ ایسی کرو، جس سے دل منور ہوجائے

   

ابوزہیر سیدزبیرھاشمی نظامی
شبِ براء ت کی فضیلت و عظمت متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضرت نبی پاک ﷺاور آپ کے صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین رضون اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اس مبارک شب میں اللہ سبحانہٗ و تعالی کو یاد کرنے اور ذکر و دعاء میں مصروف رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔
شبِ براء ت کی احادیث مبارکہ سے تائید ہوتی ہے، یعنی یہ وہ مبارک رات ہے، جس میں تمام معاملات موت و حیات، رزق و روزی اور دیگر تمام امور سے متعلق فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ام المؤمنین حصرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺایک شب میرے حجرے میں آرام فرمارہے تھے۔ اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے آپ کو بستر پر نہ پایا۔ پھر دیکھا اچانک میرے حجرے کے ایک گوشہ سے آواز آرہی ہے اور آپ سجدے میں بخشش کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا اور یہ دعاء فرمائی ’’اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو نیکو کار اور پرہیزگار ہو، شرک سے بیزار ہو اور نہ کافر ہو نہ شقی‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ! تم جانتی ہو یہ کونسی رات ہے؟‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں‘‘۔ ارشاد فرمایا ’’یہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہے، اس میں بہت سے امور طے کئے جاتے ہیں، رزق و روزی کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کو بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر جہنم کے عذاب سے نجات دیتے ہیں‘‘۔رسول اکرم ﷺ کا ارشادمبارک ہے کہ ’’دو قطرے اللہ تعالی کو بڑے محبوب و پسندیدہ ہیں، ایک تو آنسوؤں کے وہ قطرے جو اللہ کی یاد اور اس کے خوف سے ایک بندہ مؤمن کی آنکھ سے نکلے ہوں اور دوسرے خون کے وہ قطرے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے، اللہ کی راہ میں جان دے کر بہائے گئے ہوں‘‘۔

’’شب براء ت‘‘ توبہ اور مغفرت کی شب ہے ۔ اﷲتعالیٰ اپنے بندوں پر مکمل شفقت اور مہربانی کے ساتھ نظرعنایت فرماتا ہے اور اس کی دریائِ رحمت جوش میں ہوتا ہے۔ گنہگار وں کو بارگاہ رب العالمین سے ندا دیجاتی ہے کہ آغوش رحمت میں آجاؤ اور معافی طلب کروالو، تو ستار العیوب نہ صرف گناہوں، بلکہ گڑگڑانے والے کی گڑگڑاہٹ کو پسندیدفرماتے ہوئے ملائکہ کو گواہ بناکر مغفرت کا بھی اعلان فرما دیتاہے۔ چودہ (۱۴) شعبان المعظم کا آفتاب جب غروب ہوتا ہے تو آسمان دنیا پر پروردگارعالم نزول اجلال فرماتا ہے اور غمزدوں سے ان کی تمام مصیبتیں دور بھی فرما دیتا ہے۔ روایت میں ہے کہ اﷲسبحانہٗ وتعالیٰ شب براء ت میں توبہ کرنے والے بندوں کو دوزخ کی آگ سے حفاظت کی خوشخبری عطا فرماتا ہے۔

توبہ عبادت کبریٰ ہے، جو ایمان والوں کی مستقل صفت ہے، جس کے ذریعہ نفس کی پاکی، قلب کی نورانیت اور روح کی بالیدگی نصیب ہوتی ہے اور تمام عبادتوں کے لطف کا دار و مدار توبہ پر ہی منحصر ہے۔ توبہ کے لغوی معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں سرکشی سے رک کر بندگی کی طرف پلٹنا، اطاعت الہی کو اپنا شعار بنانا اور غفلت کے پردہ کو چاک کرکے بارگاہ بے نیاز تک رسائی حاصل کرنا ہے اور توبہ کی نسبت حق تعالی کی طرف ہو تو اس کے معنی شرمسار اور گنہگار بندوں کی طرف رحمت کی نظر سے کرم کرنا ہے۔
حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ ہمیں دو امانتیں دی گئی، ایک امانت تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور دوسری امانت جو تاقیام قیامت ہمارے ساتھ رہے گی وہ ہے، توبہ۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے گناہ ہی نہ کیا ہو‘‘۔ ایک اور جگہ ہے کہ زمین و آسمان بنائے جانے کے وقت سے ہی سمت مغرب میں ایک دروازہ نصب کیا گیا ہے، جس کی چوڑائی ستر(۷۰) برس کے راستے کی ہے اور وہ اس وقت تک کھلا رہے گا، جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں توبہ ایسا باب رحمت ہے، جس کے ذریعہ تاریک دل منور ہوتا ہے، مردہ ضمیر زندہ ہوتاہے۔ دراصل حق تعالی کو بندہ کی توبہ سے اس قدر خوشی ہوتی ہے، جیسا کہ سواری مع سامان کے کم ہو جانے کے بعد مل جانے پر اور غائب شدہ بچے کی واپسی پر ہوتی ہے۔انبیاء کرام معصوم ہوکر بھی دن میں ستر(۷۰) بار توبہ کرتے ہیں تو گنہگار بندے مخلوق میں سب سے زیادہ توبہ کے محتاج ہیں۔ اسباب توبہ کو فراہم کرکے، توفیق توبہ کی دولت سے نوازاجانا بھی ستر(۷۰) ماؤں سے زیادہ محبت رکھنے والی ذات کی کرم فرمائی ہے کہ اپنے دست کرم سے انسان کو بناکر اس کی صفت ’’انہ کان ظلوما جھولا‘‘ بیان فرمائی اور جب انسان نادانی و بشری کمزوریوں کی وجہ سے ’’حب الشہوات‘‘ میں گھر جائے، پھر بارگاہ قدوسیت میں سچے دل سے توبہ کرلے تو پروردگار عالم ہر قسم کے مجرمانہ داغوں کو اپنے دامن کرم میں اس طرح چھپا لیتا ہے کہ کسی کو اس کی خبر ہی نہ ہو اور حق تعالی نے توبہ کا حکم دے کر توبہ کی قسمیں بھی بیان فرما دیا، جو فضل در فضل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’توبہ کرنے والے جب توبہ کریں تو توبۂ نصوح کریں‘‘۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! توبۃ النصوح کیا ہے؟‘‘ تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’سابقہ گناہ پر ندامت کے ساتھ بارگاہ الہی سے معذرت طلب کرنا اور تھنوں میں دودھ کے نہ پلٹنے کی طرح گناہوں کا رخ نہ کرنا‘‘۔ حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توبہ وہ ہے، جس میں حسبِ ذیل تین چیزیں موجود ہوں (۱) گناہوں کا ترک کرنا (۲) احساس ندامت پیداکرنا (۳) پھر گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرنا۔نصف شعبان المعظم کی رات (آج کی شب) بندگان خدا کو توبہ کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے، عقلمند وہ شخص ہے جو اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔
[email protected]