نئی دہلی۔ حکومت کی جانب سے مالیہ فراہم کئے جانے والے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں اس کے نفاذ کے ساتھ پیر کے روز سنائے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہاہے کہ اس طرح کے ادارے اساتذہ کے تقرر کا قطعی حق نہیں رکھتے ہیں کیونکہ تعلیمی قابلیت کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اس میں ضابطہ لگاسکتی ہے۔
جسٹس ارون مشرا‘ اور یو یو للت پر مشتمل ایک بنچ نے مغربی بنگال سرویس کمیشن ایکٹ2008کے ائینی جواز کو برقرار رکھا‘ جس کے تحت مدرسوں میں اساتذہ کے تقرر کا فیصلہ کمیشن کے ذریعہ کیاجاتا ہے۔
اس نے کلکتہ ہائی کور ٹ کے فیصلے کو ایک طر ف رکھ دیا ہے جس کے ذریعہ ارٹیکل30کی خلاف ورزی کے لئے غیر ائینی قانون بنائے گئے تھے جس سے تعلق تمام اقلیتی‘ مذہبی‘ لسانیت کو اختیار دیا ہے کہ کہ وہ تعلیمی ادارو ں کو قائم کرے اور ان کی نگرانی بھی کریں۔
اقلیتی یا اکثریتی کوئی بھی ادارہ ہو قومی مفاد میں بہتر تعلیم کے لئے کسی قسم کا رعایت نہیں دی جاسکتی‘ مذکورہ سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلے کو مسترد کردیا تاکہ ٹیچرس کے تقررکے لئے جیسا کے سپریم کورٹ نے اقلیتی اداروں کے لئے انتظامیہ کی مداخلت کو روک دیاتھا یہ ویسا نہیں ہے۔
سکیولر اورمذہبی ادارے کو الگ کرتے ہوئے مذکورہ بنچ نے کہاکہ اقلیتی اداروں کا انتظامیہ کو فیصلہ سازی میں ”زیادہ سے زیادہ اختیار“ دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ اس بات کا فیصلہ اچھے انداز میں کرسکتے ہیں کہ کس طرح اقلیتوں کے خصوصی فیوچرس‘ یا اسکرپٹ‘ تہذیب‘ ثقافت کی حفاظت میں مدد کرسکیں۔
مذکورہ بنچ نے کہاکہ”تاہم جب دوسرے زمرے کی بات ہوتی ہے‘ مذکورہ حکمرانی کا زمرہ کو یہ دیکھنا سب سے زیادہ سازگار ماحول اس جگہ قائم کیاجاسکتا ہے‘ جہاں برتری حاصل کرتا ہے“۔
مذکورہ بنچ نے اس درخواست پرفیصلہ سنایا ہے جو حکومت اور ٹیچرس کے تقرر کے لئے نئے قانون کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے مدنظر چیالنج کیاگیاتھا