جمعہ کی نماز کے بعد ہندوستانی قومی پرچم کو نذر آتش کیاگیا کیونکہ وہ ہندوستانی سفیر پردیپ کمار راوت سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔
قریب2000کے ہجوم نے ائی ایس ائی ایس کا سفارت خانہ کے سامنے پرچم لہرایا‘اور دھمکی دی کہ انڈونیشاء کے بڑے ہندوستانی نژاد کاروباریوں کے خلاف احتجاج کیاجائے گا
نئی دہلی۔سخت گیر کارکنان اور شدت پسند گروپ جس میں ائی ایس ائی ایس کے حامی عناصر بھی شامل ہیں نے انڈونیشیاء میں جاکارتہ کے ہندوستانی سفارت خانہ اورمیڈان کے قونصل خانہ کے سامنے دہلی کے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات جس میں 50لوگوں کی جانیں گئی ہیں کہ خلاف احتجاج کیاہے۔
ای ٹی کو ملی جانکاری کے مطابق جمعہ کی نماز کے بعد ہندوستانی قومی پرچم کو نذر آتش کیاگیا کیونکہ وہ ہندوستانی سفیر پردیپ کمار راوت سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔
قریب2000کے ہجوم نے ائی ایس ائی ایس کا سفارت خانہ کے سامنے پرچم لہرایا‘اور دھمکی دی کہ انڈونیشاء کے بڑے ہندوستانی نژاد کاروباریوں کے خلاف احتجاج کیاجائے گا۔
انڈونیشیاء کی خارجی وزارت کے ایک عہدیدار کے مطابق ایک تیز کاروائی کی گئی ہے اور جاکارتہ میں ہندوستانی سفارت خانہ کے تئیں اپنی حمایت میں اضافہ کردیاہے۔
وہیں پاکستان کے ملوث ہونے پر شبہ کیا جارہا ہے‘ انڈونیشیا ء پر مہارت رکھنے والوں نے احتجاج میں جو گروپ شامل ہوئے ہیں اس پر تشویش کا اظہار کیاہے۔
اسلامک ڈیفنڈرس فرنٹ‘ مذکورہ فتویٰ گارڈس نیشنل مومنٹ اور 212المونی بردار ہوٹ پر مشتمل گروپس کی جانب سے ہندوستان قومی پرچم کو نذر آتش کرنے کے واقعہ کی راوت نے سخت الفاظوں میں مذمت کی ہے۔ہندوستانی پرچم جلانے کی وجہہ سے شدت پسند گروپو ں سے انہوں نے بات چیت کرنے سے صاف انکارکردیاتھا۔
روات نے مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ شدت پسندگروپوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیاں انڈونیشیاء کے اقدار کا حصہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ”شدت پسندوں کی سونچ لوگوں میں خوف او ردہشت پھیلانا ہے۔ اگر ہم ڈریں اور گھبرائیں گے تو ان کی جیت ہوگی۔ ہم ایسی دھمکیو ں پر کوئی ردعمل پیش کرنا نہیں چاہوں گا“۔
سخت گیر کارکنوں نے بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہوم کے قریب بھی دہلی فسادات کے خلاف احتجاجی دھرنا منظم کیا تھا۔ ایس ای ایشیائی سب سے بڑے ملک انڈونیشیاء اپنی مشترکہ تہذیب کے لئے ساری دنیا میں جانا جاتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں انڈونیشیاء کے ماہرین جس کے ہندوستان کے ساتھ قریبی روابط ہیں نے ملک میں ائی ہوئی تبدیلی کو دیکھا ہے اور انہوں نے احتجاج میں شامل گروپوں کی نوعیت پر شدید تشویش کا اظہار کیاہے