پولیس کا کہنا ہے کہ فسادات کے معاملات میں ہر روز لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں‘ اب تک کم سے کم 150لوگوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔
نئی دہلی۔ اب سے ایک ہفتہ قبل نہر و وہار کے مصطفےٰ آباد کی گلی نمبر18میں مذہبی طور پر عثمان سیفی نامی شخص نے رام مندر کی حفاظت کی تھی۔
شمال مشرقی دہلی کے مسلم اکثریت والے علاقے میں جب سے فسادات رونما ہوئے ہیں‘ سیفی اور ان پڑوسی نے علاقے میں کشیدگی کو پھیلنے سے روکنے کا کام کیاہے۔
ان کی بیوی سلمیٰ نے دی پرنٹ کو بتایا کہ ”وہ جانتے تھے اگر مندر کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو علاقے کے مسلمانوں پر اس کاالزام ائے گا“۔
سیفی جس کی عمر45سال بتائی جارہی ہے کہ کو اتوار کی رات دیر گئے مندر کے باہر سے پولیس نے حراست میں لے لیاہے۔
ان کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں فساد بھڑکانے کے الزام میں 12:45کے وقت دیال پور اسٹیشن لے گئی ہے۔
سلمیٰ نے کہاکہ ”انہوں نے ہی نہیں بلکہ کئی لوگوں نے مندر کی حفاظت کی۔
میں نہیں سمجھ پارہی ہوں کہ انہیں ہی کیوں نشانہ بنایاگیاہے“۔سیفی کی گرفتاری کے وجہہ سے مندر کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے لوگ اور گرفتاری کے عین شاہدین صدمہ میں ہیں ’سر پر بندوق رکھ کر انہیں لے کر چلے گئے‘۔
پڑوس کے مسلمانوں نے کہاکہ مصطفےٰ آباد کی رام مندرکے باہر وہ فسادات ہونے سے پہلے سے پچھلے بیس سالوں سے بیٹھتے ہیں۔
مصطفےٰ آباد کے ایک ساکن جو اتوار کی رات کو مندر کے باہر سیفی کے ساتھ نگرانی کے لئے بیٹھے ہوئے تھے نے کہاکہ”ہم کسی طرح کی غیبت اور الزامات کوبرداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
لہذا ہم مندر کے باہر رات کونگرانی کے لئے بیٹھ جاتے ہیں“۔ مذکورہ عینی شاہدین نے مزیدکہاکہ ”مذکورہ پولیس اچانک کار میں ائی اور سیفی کے سر پر پستول رکھا اور اس کو اٹھاکر لے گئے۔ انہوں نے سیفی کو اپنی بات کہنے تک کا موقع نہیں دیا ہے“۔
مندر کے ایک گارڈ نے بھی کہاکہ اس نے فسادات کے بعد سے ہر رات سیفی کو مندر کے باہر دیکھا ہے۔مذکورہ گارڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی گذارش کے ساتھ دی پرنٹ کو بتایا کہ”میں کسی کو ان کے نام سے نہیں جانتاہوں۔
مگر میں نے انہیں مندر کے باہر بیٹھا دیکھا ہے۔بلکہ وہ خود بھی یہ بات یقین سے کہاسکتا ہے کہ ان پر کسی چیز کا الزام نہیں ہے“۔
پولیس ذرائع کے مطابق دہلی فسادات کے ضمن میں اب تک 150لوگوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔تاہم تحویل کے متعلق کوئی سرکاری اعداد وشمار اب تک منظرعام پر نہیں ائے ہیں۔
ایک ذرائع نے مزیدکہا کہ فسادات کے معاملات میں ہر روز لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں‘ اب تک کم سے کم 150لوگوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔مصطفےٰ آباد کی راحت کیمپوں میں کئی فیملیاں پولیس اور قانونی مدد کرنے والے لوگوں سے رجوع ہورہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ایک وکیل اور لیگل ہلپ ڈسک نے کہاکہ”پچھلی رات سے مذکورہ گرفتاریوں کے متعلق کئی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔
گرفتار کئے گئے لوگوں اور ان کے رشتہ داروں کو ن سے پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے اس کی نشاندہی میں ہم ان کی مدد کررہے ہیں“۔
ہلپ ڈسک کے پاس ایک عورت جس کا نام فاطمہ ہے اس بات کی مدد حاصل کرنے کی کوششکررہی ہے کہ جس کا مبینہ طورپر کہنا ہے کہ اس کے شوہر اور17سالہ بیٹی کو پیر کی دوپہر پولیس اس وقت اٹھاکر لے گئی جب وہ تینوں شیو وہار برج پار کررہے تھے۔
فاطمہ نے کہاکہ ”ہر روز میرے شوہر او ربیٹا شیو وہار پل کے پاس پھلوں کی دوکان لگاتے ہیں۔ انہو ں نے 25فبروری کے روز بھی دوکان لگائی تھی۔ پولیس پولیس نے انہیں یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیاکہ ان کے بیٹے کو تشدد میں ملوث ویڈیو فوٹیج میں دیکھا ہے“۔
انہو ں یہ بھی بتایا کہ وہ پولیس سے گوہار لگاتی رہی کہ دونوں بے قصور ہیں۔ فاطمہ نے مزیدکہاکہ ”وہ میرے بیٹے کو پکڑنے ائے تھے مگر انہوں نے میرے شوہر کی طرف یہ کہتے ہوئے رخ موڑ لیاکہ’تم اس کے باپ ہو؟‘
اور انہیں بھی ساتھ لے کر چلے گئے“۔دیگر فیملیوں کا بھی یہ دعوی ہے کہ اتوارکے روز ان کے گھروں کے تمام مرد حضرات کو پولیس گرفتار کرکے لے جاچکی ہے۔
مصطفےٰ آباد کے ساکن محمد عمیر نے کہاکہ ”مذکورہ مردحضرات اپنے گھر والوں کی حفاظتی اقدامات کے لئے فسادات ہونے کے بعد سے اپنے گھروں کے باہر بیٹھ رہے ہیں“۔
عمیر کے پڑوسی محمد یسین کو اتوار کے روز پولیس اٹھا کر لے گئی ہے