وادی کے مرکزی کا دھارے میں دھوکے کا شکار ہونے کا احساس

,

   

غیرمعمولی مداخلت وادی میں پہلے سے موجود سیاسی خلاء میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا۔
وادی کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس( این سی) اور مذکورہ پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی( پی ڈی پی) کو احساس ہے کہ مرکز کی طرف سے آہستہ آہستہ مگر جان بوجھ کر انہیں حاشیہ پر لانے کے لئے حکمت عملی تبدیل کی گئی ہے۔

غیرمعمولی مداخلت وادی میں پہلے سے موجود سیاسی خلاء میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا۔نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر نصیر سوگامی نے دی ٹیلی گراف سے بتایا کہ ’’ کشمیر میں ہم قومی ترنگا پکڑتے ہیں اور اس کی بھاری قیمت بھی چکاتے ہیں۔

مگر اب صاف ہوگیا ہے کہ مرکز ہمیں مسلسل بدنام کرنے کے لئے دیوار کی طرف دھکیل رہی ہے‘‘۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بی جے پی کی خواہش پر انجام دیاجانے والا کام ہے تاکہ وادی میں عبداللہ اور مفتی کی سیاسی اجارہ داری کو دراڑ پیدا کرتے ہوئے ’’ تیسرا محاذ‘‘ تیار کرے ‘ جو چھوٹی گروپس پر مشتمل ہوگا اور ایسے ایک گروپ کی قیادت پیپلز کانفرنس کے سجاد لون کرتے ہیں

۔کشمیر ی سیاست پر عبور رکھنے والے ایک سابق مبصر نے کہاکہ ’’ حالانکہ یی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے بارہا باپ بیٹے کی حکومت (این سی) اور باپ بیٹی کی حکومت ( پی ڈی پی) کو ہٹانے کی بات کہی ہے

۔یہ بات میں واضح ہوا ہے کہ وادی کے عناصر جیسے سجاد لون بی جے پی کے ساتھ کھیل کھیلنے کی خواہش رکھتے ہیں ‘ اگر انہیں موقع مل جائے تو‘‘۔ وادی کی مرکزی دھارے کی پارٹیاں عوام عہد کے غلط اختتام پر طویل مدت سے گامزن ہیں ۔

رائے دہندوں کا اعتمادختم ہوگیا‘ سڑکوں پر برہمی میں اضافہ ہوا‘ دہلی کے ساتھ’’ اشتراک ‘‘ کی صورت کو مسترد کردیاگیااور مصلح دستے ‘ اس مہم کو چلانے میں ہمیشہ انہیں مشکلات پیش ائیں۔سوگامی دراصل گورنر ستیہ پال ملک کے حالیہ بیان کی روشنی میں بات کررہے تھے جس میں مرکزی دھارے کی پارٹیوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو جوڑنے کی طرف اشارہ تھا۔پچھلے ہفتہ اجمیر دورے کے موقع پر ملک نے کہاتھا کہ’’ اکثر ایسا لگتا ہے کہ بہت چھوٹا فرق ان کے بیانات اور دہشت اور دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے استعمال کی جانے والے زبان میں محسوس ہوتا ہے۔

یہا ں پر کچھ فرق مرکزی دھارے کے لیڈروں اور تنظیموں کی جانب سے دئے جانے والے بیانات دیکھائی دیتا ہے‘‘۔دونوں این سی اور پی ڈی پی نے جموں کشمیر میں حکومت کی ہے اور اب ان کا تقابل دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں سے کیاجارہا ہے۔

پی ڈی پی کے ترجمان اور پی ڈی پی ‘ بی جے پی حکومت میں سابق وزیر رہے نعیم اختر نے استفسار کیا کہ’’ اگر مرکز ہمیں ان کے ساتھ جوڑتی ہے تو کشمیر میں پھر کیا امید باقی ہے؟۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں یہ کہہ رہاہوں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس سے مکمل طور پر ہم الجھن اور خوف میں۔ فرضی امید بھی باقی نہیں ہے۔ اس کے برعکس حقیقی خوف کا احساس میں ہے۔

ہم ایسے ڈبے میں پہنچائے جارہے ہیں جو جموں اور لداخ او رکشمیر کے درمیان ایک دیوار کھڑا کرتے ہوئے سہ قومی سونچ کا حصہ ہے۔ اس مقام پر کشمیروں کا دم گھٹا جارہا ہے۔ ہم کہاں جائیں؟‘‘۔سابق چیف منسٹر او راین سی لیڈر عمر عبداللہ نے بھی ٹھیک اسی طرح کی تشویش ظاہر کی کہ وہ اسمبلی الیکشن کی تیاری کررہے ہیں جو بہت ممکن ہے اگلے کچھ ہفتوں میں منعقد کیاجائے۔

ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ’’ ہماری جگہ کو تنگ کیاجارہا ہے‘ ہم لوگوں سے کیاکہیں گے؟دہلی کا رویہ ہمارے ساتھ غداروں جیسا ہے‘ ہمارے لوگ ہمیں دہلی کے ہاتھوں کی کٹ پتلی سمجھتے ہیں۔

ہم آخر کہاں جائیں؟اگر یہاں پر مرکزی دھارے کو بدنام کیاجائے گاتو آپ کہاں دیکھائی دیں گے؟‘‘۔

جموں کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی بھی اس میں شامل ہیں نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وادی میں لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی الیکشن بھی کرائے جائیں۔

مگر سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک کے بعد دوسرے الیکشن کرانے کی الیکشن کمیشن جموں کشمیر نے بات کہی ہے