پاکستان ایک لڑائی سے نہیں سدھرے گا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی

,

   

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’ایک لڑائی سے پاکستان سدھر جائے گا یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہوگی، پاکستان کو سدھارنے میں ابھی اور وقت لگے گا۔‘

دہلی میں بی بی سی کے نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق نریندر مودی نے یہ بات خبر رساں ادارے اے این آئی سے ایک انٹرویو کے دوران کہی جب نریندر مودی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا سرجیکل سٹرائکس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔

خیال رہے کہ انڈیا نے ستمبر 2016 میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سرزمین میں داخل ہو کر وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے پہلے شدت پسندوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اُڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کیا تھا اور حکومت کے مطابق یہ کارروائی اس حملے کےجواب میں کی گئی تھی۔

نریندر مودی نے کہا کہ سرجیکل سٹرائکس کا فیصلہ ایک ’بڑا خطرہ‘ تھا لیکن وہ سیاسی خطرے کی فکر نہیں کرتے، انھیں صرف ان جوانوں کی جان کی فکر تھی جو اس آپریشن میں حصہ لے رہے تھے۔

’میں نے بالکل واضح ہدایت دی تھی کہ کامیابی ہو یا ناکامی، کمانڈوز کو سورج نکلنے سے پہلے واپس آجانا چاہیے۔۔۔‘

نریندر مودی شاذ و نادر ہی انٹرویو دیتے ہیں اور اپنے ساڑھے چار سال کے دور اقتدار میں انھوں نےایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ہے۔ انھیں اس الزام کا بھی سامنا رہا ہے کہ انٹرویو صرف انھیں صحافیوں کو دیے جاتے ہیں جو انھیں چیلنج نہ کریں۔

سرجیکل سٹرائکس کے دعوے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کی حکمت عملی، اس دعوے کی صداقت اور اس کی نیت پر سوال اٹھائے تھے۔

پاکستان نے بھارتی حکومت اور فوج کےدعوے کو بالکل بے بنیاد قرار دیا تھا۔

نریندر مودی نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے تو انکار کرنا ضروری تھا لیکن ملک میں بھی کچھ لوگ وہی بات کر رہے تھے جو پاکستان کہہ رہا تھا اور یہ بات بہت افسوس ناک تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے پوری رات آپریشن کو مانیٹر کیا اور جب تک کمانڈو واپس نہیں آئے، میں فکرمند رہا۔۔۔‘

نریندر مودی نے کہا کہ کمانڈوز کی حفاظت کے پیش نظر سرحد پار کارروائی کی تاریخ دو مرتبہ بدلی گئی تھی اور انھیں سرجیکل سٹرائکس سے پہلے خصوصی تربیت فراہم کی گئی تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سرجیکل سٹرائکس کے جو مقاصد تھے کیا وہ حاصل ہوئے کیونکہ سرحد پار سے اب بھی حملوں اور دراندازی کا سلسلہ جاری ہے، تو انھوں نے کہا وہ اس بارے میں میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے لیکن پھر کہا کہ ’سنہ 1965 میں بھی لڑائی ہوئی، تقسیم کے وقت بھی ہوئی، ایک لڑائی سے پاکستان سدھر جائے گا، یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہوگی، پاکستان کو سدھارنے میں ابھی اور وقت لگے گا ۔۔۔

’اڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد میرے اورفوج کے اندر بہت غصہ تھا۔۔۔فوج اپنے جوانوں کی شہادت کا انتقام لینا چاہتی تھی، ان کےاندر مجھ سے بھی زیادہ آگ لگی ہوئی تھی، اس لیے فوج کو جوابی کارروائی کا منصوبہ بنانے اور اسے عملی شکل دینے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔‘

نریندر مودی نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اگر سارک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت آتی ہے ’تو یہ پل اسی وقت پار کیا جائے گا۔۔۔ ہم ہر موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ موضوع ہوگا اور یہ نہیں، کیونکہ ہمارا موقف بہت مضبوط ہے لیکن بس ہمارا کہنا یہ ہے کہ بم بندوق کی آواز میں بات چیت سنائی نہیں دیتی ہے۔‘