شہریت ترمیمی قانون منظرعام پر آنے کے بعد ڈسمبر میں مودی نے دعوی کیاتھا کہ ان کی حکومت میں کبھی ناتو بات چیت کی ہے اور نہ ہی این آرسی پر کوئی منصوبہ ہے۔
نئی دہلی۔ مذکورہ مودی حکومت نے منگل کے روز کہاکہ یہ قومی رجسٹرر برائے شہریت کسی بھی خود مختار ملک کے لئے ایک ”ضروری مشق“ ہے اور یہ ہندوستان قانون کی طرف دی گئی ہدایت کے مطابق عمل میں لایاجائے گا۔
شہریت ترمیمی قانون کو چیالنج کرنے والے درخواستوں پر سپریم کورٹ پر جواب مانگے جانے پر سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے یہ بات کہی ہے۔
این آرسی پر بڑے پیمانے کی ٹال مٹول کے بعد مذکورہ حکومت کا یہ قانونی جواب سامنے آیاہے تاکہ ہندوستانی شہریوں کی فہرست تیار کی جاسکے اور پھر جو ہندوستان قانونی کہتا ہے کہ ”غیر قانونی پناہ گزینوں“ کی بھی فہرست تیار کی جائے۔
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے این آرسی پرکئی انتخابی مہم میں متضاد بیانات کے دوران ڈسمبر میں وزیراعظم نریندر مودی نے دعوی کیاتھا کہ ان کی حکومت اس مشق کے متعلق کچھ نہیں سونچا ہے اور درحقیقت ان کی حکومت میں ا س پر بات بھی نہیں ہوئی ہے۔
تاہم مودی کا یہ بیان بھارتیہ جنتا پارٹی کے2019کے منشور سے تضاد رہا جس میں اس مشق کو روبعمل لانے کا وعدہ کیاہے۔
صدر جمہوریہ نے بھی پارلیمنٹ میں اسی سال خطاب میں ایک این آرسی کا وعدہ شامل کیاگیاتھا۔ وزیراعظم کا خطاب کابینہ کا تحریر کردہ ہوتا ہے۔
قومی آبادی رجسٹرر کی تشکیل کے لئے حکومت نے ڈسمبر میں 3900کروڑ کے بجٹ کو بھی منظوری دی تھی‘ جس کے ذریعہ این آرسی کے پہلے قدم کے طور پر ڈور سے ڈور تک کا سروے کیاجائے گا‘ تاکہ قانون کو بنایاجاسکے۔
یہ مشق اپریل میں ہونے والی ہے۔سپریم کورٹ میں پیش کردہ اپنے حلف نامہ میں مودی حکومت نے اب زوردیاہے کہ غیرقانونی پناہ گزینوں کی شناخت کے لئے این آرسی ایک ضرورت ہے۔
مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں وزرات داخلہ کی جانب سے داخل کردہ ایک حلف نامہ میں کہاگیاہے کہ ایک قومی رجسٹرار برائے شہریت(این آرسی این ایس ای 2.22فیصد) کی معزز شہریوں کو غیرشہریوں سے الگ کرنے کی ضرورت تھی اور مرکزی کو اختیارات ہیں کہ وہ غیر قانونی پناہ گزینوں کی شناخت کرے اور قانون کے مطابق انہیں ملک بدر کردے۔
ایک این آرسی کی تیاری کسی بھی خود مختار ملک کے لئے ایک ضروری مشق ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں او رغیرشہریوں کی شناخت کرسکے‘ اگلے ماہ سے شروع ہونے والے قومی آبادی رجسٹرر(این پی آر)م کا حوالہ دئے بغیر یہ دعوی کیاگیاہے۔
ایک ملک کی حکومت کے لئے اخلاقی اصولوں کے طور پر غیر قانونی پناہ گزینوں کی شناخت لازمی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
مرکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی پناہ گزینوں کو پکڑیں قانون کے مطابق انہیں نکالیں یا ملک بدر کریں۔
اس طرح کا اختیار غیرملکی ایکٹ1946نے دیاہے‘ جو ہندوستان سے کسی بھی غیرملکی کو ملک بدر کرنے یا نکالنے کا حکومت کو اختیار دیتا ہے۔اس معاملے بلدیاتی قوانین عالمی قوانین پر غالب نہیں آسکتے۔
شہریت ترمیمی قانون اور این پی آر‘ این آرسی کی مشق کو چیالنج کرنے والے ایک تحریری درخواست پر عدالت کی جانب سے جاری کی گئی نوٹس کے جواب میں یہ حلف نامہ داخل کیاگیا۔
اس حلف نامہ میں کہاگیا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزین کو ہندوستان میں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے او رکسی کوبھی شہریت کا دعوی پیش کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اور نہ ہی کسی پناہ گزین کو عدالت میں جاکر اس طرح کا اختیار کے لئے دباؤ کا حق حاصل ہے۔
ارٹیکل21میں کوئی بڑی راہ ہوسکتی ہے مگر اس میں غیر قانونی تارکین وطن کا احاطہ نہیں کیاگیا ہے۔
طریقہ کار جس کے ذریعہ ایک فرد اپنے شہریت کا دعوی کے لئے حقائق پیش کرتا ہے وہ محض”منصفانہ“ اور ”واجبی“ ہے اور عدالت میں ایسا کیاجاسکتا ہے۔
جوکسی خاص ملک کا شہری ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کے لئے ثبوت کا بوجھ عائد کرنے کی ایک وجہہ سمجھ میں آتی ہے۔
کسی کی شہریت قائم کرنے کے لئے اس کو پیدائش کی تاریخ‘ پیدائش کا مقام‘ والدین کا نام‘ ان کی جائے پیدائش او رشہریت کے شواہد پیش کرنا پڑے گا۔
بعض اوقات شہریت قانون کے دفعہ 6اے(1)(d)کے تحت اس سے متعلق دادا‘ دادی کی جائے پیدائش کی صداقت بھی پیش کرنا ہوگا۔
تمام حقائق ضروری ہوں گے کہ انتظامیہ کی نہیں بلکہ مذکورہ فرد کے ذاتی جانکاری کا حصہ رہیں۔
شواہد دینے کے بعد مذکورہ ریاستی انتظامیہ ضرورت پڑنے پر ان حقائق کی جانچ کرے گی‘ حلف نامہ میں آگے کہاگیا ہے کہ اگر ریاستی انتظامیہ کا ایک فرد کی شہریت پر تنازعہ کا دعوی پیش کیاجاتا ہے‘
تو یہ مشکل ہی نہیں بلکہ پہلے پیش کردہ شواہد ان نکات پر درست ثابت کرسکیں۔