اؤ ہماری مسجد کو ‘ یہ تین الفاظ کس طرح تعصب پر فتح حاصل کرسکتے ہیں۔

,

   

یہ ایک 28سالہ وکا س گاؤلی کا سوال تھا کہ ’’ چلتا کیا ہے مسجد کے اندر؟‘‘ مگریہ سوال اس نے کبھی اپنے مسلم دوستوں سے پوچھنے کی ہمت نہیں جٹائی۔

اس نے کہاکہ ’’ ہمیشہ اس بات کا خدشہ رہتا تھا‘ کہ وہ لوگ کیا سونچیں گیں‘‘۔پچھلے سال ڈسمبر میں ‘ گاؤلی کو اس وقت غیر ارادے طور پر اس تجرے کا سامنا کرنا پڑا ‘ جب وہ پونا کی اعظم کیمپس علاقے کی مسجد میں پہلی مرتبہ گیا‘ اس نے اسلام کے متعلق سوالات پوچھے اور مسجد میں چاروں طرف گھوم کر مشاہدہ کرنے لگا۔

گاؤلی ان 350لوگوں میں شامل تھا جو پونا اسلامک فاونڈیشن سنٹر(پی ائی ائی سی) کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام کے تحت مسجد کا دورہ کرنے کے لئے پہنچے تھے۔

اپنی کئی سالوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعظم کیمپس کی اس مسجد میں ایک تعلیمی ادارے کے دیگر طبقات کے مرداور خواتین کے لئے بھی اپنی مسجد کے دروازے کھول دئے ہیں۔

یہ فکر مذہب اسلام کے متعلق پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے میں کافی اہم اور مددگار ثابت ہوگی۔یہ ایک ایسی پہل ہے جو ملک بھر میں مستحکم ہورہی ہے۔

پونا مسجد کے علاوہ الفرقان ممبرا( ممبئی)‘ مسجد عمر بن خطاب ‘ احمد آباد اور حیدرآباد کی تین مساجد جس میں مشہور اسپینی طرز کی مسجد بھی شامل ہے نے ہر کسی کے لئے جو مسجد آبا چاہتا ہے اپنے دروازے کھول دئے ہیں۔

یوکے کے علاوہ امریکہ اور کینڈا میں ویزٹ مائی ماسک کے عنوان پر اس تحریک کی شروعات عمل میں ائی تھی۔ تب سے لے کر اب تک سینکڑوں مساجدکے دروازے تمام کے لئے کھول پر اسلام کے متعلق پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کاکام کیا جارہا ہے۔

پی ائی ائی سی کے خیر الدین شیخ جنھوں نے اس پروگرام کے انعقاد میں کافی مدد کی ہے کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس مہم کے خلاف کس طرح کی مہم چلائی جارہی ہے۔

فرضی سوشیل میڈیا اکاونٹس کے ذریعہ اس بات کا الزام لگائے جاتے ہیں کہ مساجد اور مدرسے نفرت پھیلانے کاکام کرتے ہیں‘ مساجد اور مدرسوں سے دہشت گردی فروغ پاتی ہے۔

منتظمین نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جانے والی بدگمانیوں کو دور کرنے کے لئے غیر مصدقہ خبروں کے متعلق پلے کارڈس کے ذریعہ وضاحت بھی کی ہے۔

شیخ جس کا اسپورٹس ویر تیار کرنے کا کاروبار ہے نے اس بات کو مانا ہے کہ لوگوں کا رویہ پچھلے کچھ سالوں کے مقابلے تبدیل ہوا ہے جب وہ کہیں پر کرایہ کا مکان دیکھتے تو انہیں باربار مکان دینے سے انکار کردیاجاتا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ پچھلے چھ سالوں سے ہم نے بین مذہبی بات چیت او رسمینار کا تہواروں کے موقع پر انعقاد اس امید کے ساتھ عمل میں لایا کہ ا س معاملے پربات چیت ہوگی۔ مگر سوشیل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر بھر دیاگیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہاکہ لو گ پوچھتے تھے’’ کیو ں سب کے لئے مساجد کھلے نہیں رہتے؟تم کیاچھپاتے ہو؟‘ہمیں محسوس ہوا کہ ہم کو مزید تعمیری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘‘۔احمد آباد کی مسجد عمر بن خطاب کے ٹرسٹی معین الدین نصر اللہ کو راست طور پر تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہو ں نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ایک کتاب میلہ معمر شخص نے ان سے یہ کہتے ہوئے دوری اختیا ر کرلی تھی کہ’’ تم لوگو ں سے جتنی دوری بنائی جائے اتنا اچھا ہے‘‘۔

اس بات سے نصر اللہ حیرت زدہ ہوگئی اور یہ سونچنے لگے کے انہیں ان خدشات کو دور کرنے کے لئے کیاکرنا چاہئے۔ اس کے لئے ایک سال لگا مگر انہو ں نے پچھلے ماہ ’ویزٹ مائی ماسک‘ اور ہماری مسجد میں پروگرام کی شروعات کی۔

اتنا ہی نہیں بلکہ یہ مسجدفیس بک او رٹوئٹر پر بھی مصروف ہے‘جہاں پر مسجد میں درس دئے جانے والے والی ویڈیوز اور مسجد کی تصوئیریں اور کھلے دروازوں پر مشتمل فوٹوز پوسٹ کئے جاتے ہیں۔

اس کا ردعمل بھی کافی بہتر مل رہا ہے ۔ احمد آباد کے مقامی لوگ مسجد کادورہ کرنے کے بعد نہ صرف اطمینان کا اظہار کررہے ہیں بلکہ مساجد اور اسلامی تعلیمات کے متعلق اپنے رائے میں تبدیلی کا بھی اظہار کررہے ہی