ایک تصویر جو 1000الفاظ کہہ رہی ہے‘ نرسمہاراؤ بہادر یارجنگ کے ہمراہ

,

   

حیدرآباد۔ اتوار کے روز جیسے ہی تلنگانہ حکومت نے سابق وزیراعظم نرسمہار اؤ کی یوپیدائش کے موقع پر ان کی صدی تقاریب ایک سال تک منانے کااعلان کیاکہ‘ تلنگانہ کے سپوت کی وارثت تنازعہ میں گھر گئی ہے۔

یہ سچ ہے کہ پی وی کو کانگریس پارٹی کی قائد اعلی سونیا گاندھی پسند نہیں کرتی تھیں‘ کیونکہ کئی وجوہات کے سبب سابق وزیراعظم جانے جاتے تھے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ بطور وزیراعظم خدمات انجام دینے کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر نہر و گاندھی خاندان کی ”بالادستی“ کو تسلیم نہیں کیاتھا۔

تاہم تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی کے قائد اور چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے متوفی لیڈر کی ”وراثت“ کو ان کی موت کے ایک اور نصف دہے کے بعد جگایا اور اس کو اپنا بھی لیاہے۔

ایسا انہوں نے سیاسی وجوہات کی بناء پر کیاہے جس میں تلنگانہ سے کانگریس کا خاتمہ بھی شامل ہے۔طالب علمی کے دور سے ہی پی وی ایک سیاسی جہدکار رہے ہیں۔

ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران میرعثمان علی خان کی حکمرانی کے خلاف لڑائی میں بھی وہ شامل رہے۔جس کے نتیجے میں انہیں ریاست سے بیدخل کردیاگیاتھا۔

انہوں نے ناگپور جانے کا انتخاب کیا او روہاں پر اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں۔مگر طالب علمی کے ابتدائی دور میں‘ وہ موافق نظام دائرے میں دیکھائی دئے ہیں۔

مذکورہ تصویر میں وہ بہادر یارجنگ علیہ الرحمہ کے عقب میں دیکھائی دے رہے ہیں جو اس وقت مجلس پارٹی کی قیادت کرنے والے مقبول قائد تھے۔

مذکورہ تصویر ادارہ ادبیات اُردو کی ایک تقریب کے دوران لی گئی ہے جو اب پنجہ گٹہ پر ہے۔

یہ تصویر اس پیش رفت کی یاددلاتی ہے جو حیدرآباد اور اس کے کچھ اہم شہروں نے لی تھی