تلنگانہ میں اقتدار کے لیے بی جے پی کی خصوصی حکمت عملی

,

   

l با اثر ریڈی رہنماؤں کو پارٹی میں شامل کر کے ویلما کے سی آر کو ہرانے کا منصوبہ
l کانگریس اور تلگو دیشم کے درجن سے زائد قائدین بی جے پی میں شمولیت کے لیے تیار
حیدرآباد ۔ 17 ۔ جون : ( سیاست نیوز) : ریاست تلنگانہ میں بی جے پی خود کو مضبوط کررہی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں اپنے چار امیدواروں کی کامیابی سے زعفرانی پارٹی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں ۔ ایسے میں بی جے پی قائدین کا دعویٰ ہے کہ پارٹی میں تلگو دیشم اور کانگریس قائدین بھی شامل ہورہے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی نے تلنگانہ کی 17 لوک سبھا نشستوں میں سے 4 پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنی حریف جماعتوں کو حیران کردیا ۔ بی جے پی کو ان انتخابات میں 19.5 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو ریاست تلنگانہ میں اب تک اس کے حاصل کردہ سب سے زیادہ ووٹ ہیں ۔ بی جے پی کے بعض قائدین کا دعویٰ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران کانگریس اور تلگو دیشم کے ایک درجن سے زائد اہم قائدین بی جے پی میں شمولیت اختیار کریں گے ۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ ہم نے مغربی بنگال اور اوڈیشہ کی طرح 2019 کے عام انتخابات میں تلنگانہ میں اچھی شروعات کی ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ 17 لوک سبھا نشستوں میں سے حکمراں ٹی آر ایس نے 9 نشستیں کانگریس نے تین اور ایم آئی ایم نے ایک نشست حاصل کی ۔ چار نشستوں پر بی جے پی امیدوار کامیاب ہوئے ۔ خود پارلیمانی حلقہ نظام آباد سے چیف منسٹر کے سی آر کی دختر کے کویتا کو شکست ہوئی ۔ بی جے پی کے دوسرے لیڈر کے مطابق جس طرح مغربی بنگال میں ٹی ایم سی اور کانگریس کے قائدین بی جے پی میں شامل ہو کر اسے تقویت پہونچا رہے ہیں ۔ اسی طرح آئندہ چند ماہ میں کانگریس اور تلگو دیشم کے بعض اہم قائدین تلنگانہ میں بھی بی جے پی میں شامل ہو کر اسے مستحکم کریں گے ۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ دسمبر 2018 کو منعقد ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 119 نشستوں میں سے صرف ایک نشست پر کامیابی ملی تھی اور وہ صرف 7 فیصد ووٹ حاصل کر پائی ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو نے جو شمالی تلنگانہ میں پارٹی کے انچارج ہے با اثر ریڈی کمیونٹی اور دیگر ذاتوں ( او بی سیز ) سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرنے ایک خصوصی لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ریڈی طبقہ روایتی طور پر ویلما کمیونٹی کا حریف سمجھا جاتا ہے جب کہ چیف منسٹر کے سی آر ویلما طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شمالی تلنگانہ میں بی جے پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ریڈی کمیونٹی کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے ۔ مثال کے طور پر انتخابات سے قبل بی جے پی نے محبوب نگر کے سینئیر ریڈی لیڈر اے پی جتندر ریڈی ، سابق ریاستی وزیر ڈی کے ارونا ، پی سدھاکر ریڈی ، او بی سی لیڈر اروند دھرم پوری جو ڈی سرینواس کے بیٹے ہیں اسی طرح ایس بابو راؤ کو پارٹی میں شامل کیا ۔ بابو راؤ اور اروند دھرم پوری کو بالترتیب عادل آباد اور نظام آباد سے کامیابی حاصل ہوئی جب کہ ڈی کے ارونا کو 77,289 ووٹوں سے شکست ہوئی ۔ شمالی تلنگانہ میں بی جے پی کو تین حلقوں اور حیدرآباد کے جڑواں حلقہ سکندرآباد سے کامیابی حاصل ہوئی اور سکندرآباد سے کامیاب ہوئے جی کشن ریڈی کو مملکتی وزیر داخلہ بنایا گیا ۔ بی جے پی قائدین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ریڈی اور او بی سیز قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو بی جے پی کو 2023 کے اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوگی ۔ بی جے پی کے ریاستی صدر ڈاکٹر لکشمن کے مطابق ریاست میں کانگریس کا زوال بی جے پی کا عروج ثابت ہوگا ۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں حیدرآباد کے تاریخی قلعہ گولکنڈہ پر بی جے پی کا پرچم لہرائے گا ۔۔