جسم کے کاٹے جانے کا احساس ہورہا ہے‘ امید کرتاہوں کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ نم آنکھوں سے‘ فاروق عبداللہ

,

   

انہوں نے کہاکہ وہ اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور ”مجھے افسوس ہے کہ یونین ہوم منسٹر اس طرح کا جھوٹ بولتے ہیں“

نئی دہلی۔جموں کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی او رریاست کو جموں کشمیر اور لداخ دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے فیصلے پر اپنے پہلے تبصرے میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے منگل کے روم کہاکہ حکومت کا ریاست کی تقسیم کے متعلق یہ فیصلہ ہمیں ”تمہارے جسم کو کاٹنے“ کا احساس دلارہا ہے۔

YouTube video

سری نگر کے اپنے گھر میں این ڈی وی سے بات کرتے ہوئے جذبات ہوئے عبداللہ نے کہاکہ ”میں نے کبھی یہ ہندوستان نہیں دیکھا“ اور ملک کی عوام پر زوردیا کہ وہ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ انہوں نے کہاکہ ”ہم آپ کے اچھے او ربرے میں ہمیشہ رہے۔

اور میں ا مید کرتاہوں کہ آپ بھی ہمارے اچھے او ربری میں شامل رہیں اور ملک میں جمہوریت او رسکیولرزم کی واپسی کے لئے دعاء کریں“۔ان

ہوں نے کہاکہ وہ اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور ”مجھے افسوس ہے کہ یونین ہوم منسٹر اس طرح کا جھوٹ بولتے ہیں“۔

انہوں نے ہوم منسٹرامیت شاہ کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں شاہ نے لوک سبھا میں کہاتھا کہ عبداللہ نہ تو گرفتار کئے گئے ہیں اور نہ ہی نظر بند ہیں وہ اپنے گھر میں اپنی مرضی سے ہیں۔

ریاست کے تقسیم پر عبداللہ نے استفسار کیاکہ اگر حکومت چاہئے تو”ہمارے دل بھی تقسیم کردے“۔

انہوں نے کہاکہ ”آپ کیاسمجھتے ہیں‘ اس کو کیا احساس ہوگاجب اس کے جسم کو کاٹ دیاجائے؟ تمام مواقعوں پر جسم اکٹھا کھڑا رہتا ہے‘ متحدہ طور پر تمام شیطانی سازشوں سے مقابلہ کرتا ہے۔

آج کیا لوگوں کے احساس کے متعلق آپ کیاسونچتے ہیں‘ ہم اس قوم کے لئے کھڑے ہوئے ہیں‘ پھر ہمارے ساتھ کس طرح دھوکہ بازی کی جاسکتی ہے۔

کس طرح ایک ریاست کو یونین ٹریٹری بنایاجاسکتا ہے۔ اورعلاقوں کی تقسیم کی جارہی ہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”یہ میں نے ہندوستان نہیں دیکھا۔

میں نے کبھی یہ ہندوستان نہیں دیکھا۔ یہ ہندوستان ہم سب کاہندوستان ہے۔ ہندو ہومسلم ہو‘ سکھ ہو‘ عیسائی ہویہ سب کا ہندوستان ہے“۔

پچھلے ستر سالوں سے ہم اس کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور حکومت ہند نے ہمیں ہی اجنبی بنادیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاآپ عدالت سے رجوع ہونگے تو عبداللہ نے کہاکہ ”میں سمجھتاہوں ہم جائیں گے انشاء اللہ ہم دوبارہ ساتھ بیٹھ کر اس کا مضبط پہلو تلاش کریں گے۔ ہم اس کو ایسا نہیں جانے دیں گے۔

موت اللہ کی مرضی ہے‘ تو پھر اس سے ڈر کیسا؟۔میری تشویش عام آدمی کو درپیش مسائل ہیں۔

قید کردئے گئے ہیں‘ ان کے گھر وں میں دوائیں نہیں ہیں او رکئی لوگو ں کے گھروں میں کھانے کا سامان بھی نہیں ہے۔

اس کا کیا مطلب ہے رہ جاتی ہے کہ حکومت اپنے بیان میں کہہ رہی ہے اس کے پاس تین ماہ کا راشن ہے‘ ہمارے پاس دودھ‘ شکر اور تین ماہ کا اٹا ہے جب ایک آدمی اس کو خرید نہیں پارہا ہے جس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کا فائدہ کیاہوا؟“