جمعہ کے دن کی فضیلت و اہمیت

   

مولانا حافظ محمد عبدالقدیر نظامی
جمعہ عربی لفظ ہے۔ اجتماع سے مشتق ہے، جمعہ (جمع ہونے کا دن)۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد جمع کی جائے گی یا اس وجہ سے کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت حوّا علیہا السلام زمین پر اسی روز ملے تھے (فتح القدیر) یا اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کو جمعہ کہا گیا۔ حدیث شریف میں جمعہ کے کئی نام ذکر کئے گئے ہیں۔ سیدالایام (دنوں کا سردار)، خیرالایام (بہترین دن) افضل الایام (زیادہ فضیلت والا دن)، شاھدٌ، (حاضرین کا دن) یوم المزید (نعمتوں کی زیادتی کا دن)، عیدالمومنین (مسلمانوں کی عید)، زمانہ جاہلیت میں اس دن کو یوم عروبہ (رحمت کا دن) کہا جاتا تھا۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ یہود کے یہاں ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص تھا کیونکہ اسی دن خدا نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات بخشی تھی۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے علیحدہ کرنے کے لیے اتوار کا دن از خود مقرر کرلیا۔ اگرچہ کہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیا تھا نہ انجیل میں اس کا ذکر ہے۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممتاز کرنے کے لیے ان دونوں دنوں کو چھوڑ کر جمعہ کو اجتماع عبادت کے لیے اختیار کیا اور اسی بناء پر جمعہ کو مسلمانوں کی عید کا دن کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اسی دن پیدا کئے گئے اور اسی دن میں جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے اور قیامت اسی دن آئے گی۔ ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بارے میں فرمایا اس دن تمہارے باپ آدم پیدا ہوئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اور اسی دن سخت پکڑ ہوگی۔ (مسند احمد)
حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا شب جمعہ کا مرتبہ لیلۃ القدر سے بھی زیادہ ہے۔ اس لیے کہ اس رات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے شکم طاہر میں جلوہ افروز ہوئے اور حضورؐ کا تشریف لانا اس قدر خیر و برکت دنیا و آخرت کا سبب ہوا جس کا شمار و حساب نہیں کیا جاسکتا۔(اشعۃ اللمعات)جمعہ کا دن سارے دنوں سے افضل و ممتاز ہے اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ تمام دنوں سے زیادہ ہے۔
جمعہ کے دن میں پانچ خصوصیات ہیں (۱) اسی دن اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا (۲) اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر خلیفہ بناکر اتارا (۳) اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی (۴) اسی دن میں ایک ایسی مقبول گھڑی ہے کہ بندہ اس گھڑی میں اللہ سے حلال پاکیزہ چیز مانگتا تو وہ اس کو ضرور عطا کردی جاتی ہے (۵) اسی دن قیامت آئے گی۔ خدا کے مقرب فرشتے آسمان و زمین، ہوا، پہاڑ، دریا کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جمعہ کے دن سے لرزتی اور ڈرتی نہ ہو (ابن ماجہ) ہر مسلمان کو اسی دن لازم ہے کہ غسل کرے، سر کے بالوں اور بدن کو خوب صاف کرے اور مسواک کرے۔ کیونکہ مسواک کرنا بھی اس دن بہت فضیلت رکھتا ہے۔ غسل کے بعد عمدہ کپڑے پہنیں اور ممکن ہو توخوشبو لگائیں اور ناخن وغیرہ بھی کتروائے۔ جامع مسجد میں بہت سویرے جائیے جو شخص جتنا سویرے جائے گا اس قدر اس کو ثواب ملے گا۔ (ترمذی)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے جو شخص جمعہ کے دن نہایت اہتمام کے ساتھ غسل کیا جس طرح پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل کیا جاتا ہے پھر اول وقت مسجد میں جا پہونچا تو اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی کی اور جو اس کے بعد دوسری ساعت میں پہونچا تو اس نے گویا گائے یا بھینس کی قربانی کی اور اس کے بعد تیسری ساعت میں پہونچا تو اس نے گویا سینگ والا مینڈھا قربان کیا اور اس کے بعد چوتھی ساعت میں پہونچا تو گویا خدا کی راہ میں انڈا صدقہ دیا۔ کیا پھر جب خطیب خطبہ دینے کے لیے نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کا دروازہ چھوڑ دیتے ہیں، خطبہ سننے اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آبیٹھتے ہیں۔ (بخاری)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس میں ایک مسلمان جو نماز کا پابند ہو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ عطاء فرمادیتے ہیں ۔ (مسلم شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کی فضیلت کے بارے میں فرمایا مجھے خیال ہوتا ہے کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے پھر اس کے بعد اُن لوگوں کے گھروں کو آگ لگادو جو جمعہ چھوڑ کر بیٹھے ہیں۔ (نسائی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو آپ کی چشم مبارک سرخ ہوجاتی تھی اور آواز بلند ہوجاتی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپؐ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں کہ صبح کو اس کا حملہ ہونے والا ہے، شام کو ہونے والا ہے۔ (مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں اپنے اصحاب کو اسلام کے اصول و قواعد اور شرائع کی تعلیم دیتے تھے اور اگر امر و نہی کا معاملہ ہوتا تھا۔ امر و نہی فرماتے تھے۔ (زاد المعاد)
حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور کی نماز بھی معتدل ہوتی تھی اور خطبہ بھی معتدل قرآن کی چند آیات تلاوت فرماتے، پھر لوگوں کو نصیحت فرماتے۔ (مسلم) خطبہ جمعہ کو بہت خاموشی اور سکون کے ساتھ سننے کا حکم ہے تاکہ پرسکون اور روحانی فضاء میں اس کا پورا فائدہ حاصل ہوسکے۔ اس لیے کہ یہ عبادت کا محل ہے نہ کہ خطابت کا۔خطبہ کے دوران گفتگو کو سختی سے منع کیا گیا یہاں تک کہ اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو بات چیت کرنے سے بھی روکنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس میں بھی اس کے سکون و وقار میں فرق آجائے گا جو خطبہ میں مطلوب ہے۔
حضرت امام غزالیؒ اپنی معرکتہ الآراء کتاب احیاء العلوم میں لکھتے ہیں، (ترجمہ) مسلمانوں میں جب تک اصلی اسلام تھا تو جمعہ کے دن فجر کے بعد راستے اور شہروں کی گلیاں لوگوں سے بھری ہوئی نظر آتی تھی۔ کیونکہ سب لوگ بہت سویرے جامع مسجد میں جاتے تھے۔ بہت اژدہام ہوتا تھا، جیسے عید کے دنوں میں ہوتا تھا، پھر یہ طریقہ جاتا رہا لوگوں نے کہا کہ یہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں پیدا ہوئی۔ آگے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں شرم نہیں آتی۔ یہود اور نصاریٰ ہی کو دیکھ کر ان کو عبرت پکڑنی چاہیے کہ وہ لوگ اپنی عبادت کے دن یعنی یہود ہفتہ کو نصاریٰ اتوار کو اپنے عبادت خانوں میں کیسے شوق سے سویرے جاتے ہیں اورطالبان دنیا کتنے سویرے بازاروں میں خرید و فروخت کے لیے پہنچ جاتے ہیں پس طالبانِ دین کیوں پیش قدمی نہیں کرتے۔
اسلام نے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا ایسا مقرر کیا ہے جس میں تمام شہر کے محلوں اور آس پاس کے مسلمان آپس میں جمع ہوکر اس ساتویں دن کی عبادت ادا کریں۔ سال میں دو عیدوں میں اور سال میں ایک مرتبہ حج کے دن سب دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرنے میں جس قدر فوائد و برکات حاصل ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے ان تمام اجتماعات کا فائدہ اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا ہے جس کی ان دنوں بہت کمی ہے۔ آج مسلمانوں کے اجتماعات کی صفیں درہم برہم ہیں ان کے دل ایک دوسرے سے رخ پھیرے ہوئے ہیں اور اُن کے سجدے بے ذوق و شوق بن کر رہ گئے ہیں اور ان میں روح اجتماعی اور قلب کی والہانہ کیفیت نہ رہی۔
حضرت عراک بن مالکؒ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوتے تو مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ فرماتے تھے: اللھم انی أجبت دعوتک و صلیت فریضتک، و انتشرت کما امر تنی، فارزقنی من فضلک و أنت خیر الرازقین۔ (تفسیر صابونی)
اے اللہ! بے شک میں نے تیری دعوت کو قبول کیا اور میں نے تیری فرض نماز پڑھی اور میں نکل گیا جیسا کہ تو نے مجھ کو حکم دیا پس تو مجھ کو اپنے فضل سے رزق عطاء فرما اور توہی بہترین رزق دینے والا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے یہود و نصاریٰ پر جو تم سے پہلے تھے جمعہ کے دن کی عظمت و فضیلت پوشیدہ رکھی اس لیے وہ بھٹک گئے۔ یہود کے لیے ہفتہ کا دن تھا اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن۔ پس وہ قیامت تک ہمارے پیچھے ہیں ہم اہل دنیا سے آخر پر آئے ہیں اور سب لوگوں سے پہلے ہمارا فیصلہ ہوگا۔ یعنی دربارِ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ وجہ اس بات کی یہ ہے کہ دنیا کی ابتداء اتوار سے شروع ہوئی اور اس کی تکمیل جمعہ کے دن بوقت عصر ہوئی۔ پس جمعہ کے دن میں جس کی پیدائش ہو وہ جامع فضائل والا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی فضیلت اس امر کے مقتضی ہے کہ اس کو دربارِ الٰہی میں باریابی سب سے پہلے ہو کیونکہ وہ تمام نیکیوں کا مجمع اور سب کا سردار ہے۔
(اسرار شریعت)
حضرت مظہر جانِ جاناںؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جو دعاء کی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ حضرت اگر وہ گھڑی ہم کو مل جائے تو کیا دعا کرنا چاہیے تو آپ نے فرمایا کہ نیک صحبت ملنے کی دعاء کرنی چاہیے۔
(مواعظ حسنہ)