استنبول۔ترکی کے تین رپورٹس نے ایک نئی کتاب لکھی ہے ‘ جس میں سعودی عرب کے باغی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی تفصیلات کو پیش کیاہے‘ جس کی شروعات گھر لے جانے سے ہوئی اور انجام قتل ثابت ہوا۔کتاب میں دعوی کیاگیا ہے’’پہلے ہم اس کو کہیں گے ‘ ہم تمہیں ریاض لے جارہے ہیں‘اس طرح کا بات چیت سعودی کی قتل کرنے والے ٹیم کے دوممبران کے درمیان میں ہوئی تھی۔
اگر وہ نہیں آیاتو ہم اس قتل کردیں گے اور اس کی نعش کو ٹھکانے لگادیں گے‘‘۔ترکی کے عہدیداروں نے ریکارڈنگ کا حوالہ دیتے ہولے کہاہے کہ صحافی مسٹر خشوگی کی موت جو 2اکٹوبر کو استنبول کے سعودی سفارت خانہ جانے کے وقت ہوئے تھی۔
اورسعودی فورسس کے ہاتھوں پیش ائے قتل کے کی تفصیلات پر مشتمل خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداروں نے کچھ تفصیلات فاش کئے ہیں۔مگر ان ریکارڈنگس پر درج تفصیلات کے موثر خلاصہ کی پیشکش مذکورہ نئی کتاب میں کی جارہی ہے۔
اس میں مسٹر خشوگی کی آمد سے قبل سعودی اہلکاروں کی منصوبہ سازی اور پھر ان کی اگلے کاروائی کو درج کیاگیا ہے۔
تین صحافی عبدالرحمن سیمسیک‘ نازیف کامران اور فرحت انولو‘ حکومت کی حمایتی نیوز پیپر صباہ کی تحقیقاتی یونٹ کے لئے کام کررہے ہیں اور ان کے متعلق یہ بات عام ہے ان کا ترکی خفیہ ادارے سے قریبی تعلق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی رسائی مذکورہ اڈیوریکارڈنگس تک نہیں ہوئی مگر اس کو حال کرنے والے خفیہ ایجنسی کے عہدیداروں نے ریکارڈنگس کے متعلق انہیں جانکاری فراہم کی ہے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ترکی عہدیدار نے علیحدہ طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جو جانکاری نئی کتاب میں درج ہیں اس کی تفصیلات کا خلاصہ کیاگیا ہے۔
مذکورہ کتاب’’ سفارتی مظالم‘ جمال خشوگی کے قتل کا سیاہ باب‘‘کو ترکی زبان میں تحریر کیاگیا ہے اور ڈسمبر سے یہ فروخت کی جارہی ہیں۔جمال خشوگی جو شادی کرنے کے لئے درکار دستاویزات حاصل کرنے کے لئے سفارت خانہ گئے تھے کے ساتھ جو ہوا ‘ اس پر مشتمل واقعات میں سعودی عہدیدار نے تبدیلی لائی ہے ۔
پہلے تو ان کا کہنا تھا کہ مقرر وقت پر سفارت خانہ پر اپنے کام کی انجام دہی کے بعد خشوگی عمارت سے پوری حفاظت کے ساتھ باہر نکل گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ ایک جدوجہد میں خشوگی کی موت ہوگئی تھی۔
بعدمیں یہ بھی کہاگیا کہ انہیں مار دیاگیا۔مملکت نے کہاتھا کہ اس کیس میں اٹھارہ لوگوں کو تحویل میں لے لیاگیاہے اور ریاض میں گیارہ لوگوں پر اس کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے ۔ کتاب میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کے ترکی حکومت کے پاس مذکورہ ریکارڈنگس کس طرح پہنچے۔
مگر یہ ضرور کہاگیا کہ ترکی کے خفیہ ایجنسی عہدیداروں نے قونصلیٹ کے مختلف حصوں سے یہ اڈیو ریکارڈنگس اکٹھا کئے ہیں۔
رپورٹرس نے اڈیو ریکارڈنگس میں سے ایک بات کرنے والی کی شناخت کے طور عہدیدر مہر عبدالعزیز کی شناخت کی ہے ‘ جو اکثر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سکیورٹی میں ہمیشہ دیکھائی دینے والا افیسر ہے۔
کتاب میں کہاگیا ہے کہ مسٹر مرتب کو جمال خشوگی کے ساتھ بات چیت کرنے اور بات چیت کا تعین کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سنائی دیاجارہا ہے۔
رپورٹس میں لکھا ہے کہ ترکی کے عہدیداروں نے مسٹر مرتب اور دیگر کی آواز کے ذریعہ شناخت کی ہے۔
اس میں کہاگیا ہے کہ مسٹر مرتب جس نے منصوبے کی ذمہ داری صالح ال توبیگی جو سعودی عرب کے اعلی فارنسک عہدیدار ہیں کے سپرد کی ‘ اور ان سے کہاکہ مسٹر خشوگی کو سعودی عرب واپس لانے کی کوشش کریں۔
اگر مسٹر خشوگی آنے سے انکار کریں تو کتاب کے مطابق مسٹر مرتب نے مسٹر توبیگی سے کہاکہ ’’ ہم اسے ماردیں اور نعش کو ٹھکانے لگادیں گے‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ’’ جمال تقریبا1.80میٹر اونچے ہیں‘جس طرح کا ایک قربانی کے جانوروں کو ذبح کیاجاسکتا ہے مگر اس کو غائب کرنے کے لئے وقت لگتا ہے‘‘ ۔ توبیگی کی اڈیو ریگارڈنگس کے مطابق انہوں نے کہاکہ ’’ میں بہتر انداز میں کاٹنا جانتا ہوں۔
مگر ٹھنڈے جسم پر اب تک میں نے کام نہیں کیاہے‘ مگر میںآسانی کے ساتھ کرلوں گا۔جب میں کام کررہاتھا‘ میں ہیڈ فون لگائے ہوئے میوز یک سن رہا تھا۔ اور میں کافی پینے کے ساتھ سگریٹ نوش کررہاتھا‘‘۔
توبیگی نے مزیدکہاکہ ’’ جب میں چیر پھاڑ مکمل کرلوں‘ تو پلاسٹگ بیاگوں میں اس کو باندھ کر سامان میں رکھ لینا اور لے کر چلے جانا‘‘ مسٹر خشوگی کے جسم کا تکڑے کو‘‘۔استنبول کے سعودی سفارت خانہ میں خشوگی داخل ہونے کے ایک منٹ کے اندر ہی انہیں قونصیل دفتر میں لے جایاگیا۔ انہوں یہ کہتے ہوئے سناگیا کہ’’ میرا ہاتھ چھوڑو‘ تم کیاسمجھتے ہوئے تم کیاکررہے ہو؟‘‘۔
رپورٹرس نے لکھا کہ ’’ جیسے ہی مسٹر خشوگی کمرے میں داخل ہوئے‘‘ مسٹر مرتب نے ان سے کہا’ یہاں بیٹھ جاؤ۔ ہم یہاں پر تمہیں سعودی عرب لے جانے کے لئے ائے ہیں‘ خشوگی کا جواب چھوٹا اور واضح تھا’میں ریاض نہیں جانا چاہتا‘‘
۔سعودی ٹیم چاہتی تھی کہ مسٹر خشوگی اپنے بیٹے صالح کے لئے ایک پیغام بھجیں ۔ ’’میری بیٹے میں استنبول میں ہوں۔ کچھ وقت کے لئے مجھ سے بات نہیں ہوئی تو تم پریشان نہ ہونا‘‘ ۔
مسٹر خشوگی نے اس سے انکار کیا اور مسٹر مرتیب نے اپنے ماتحت لوگوں کو حکم دیا کہ اوزار لگائیں اور ان کے جسم کو ختم کردیں ‘ ایسا کتاب میں کہاگیاہے۔ مذکورہ اڈیو ٹیبل پر رکھے آلہ سے حاصل کی گئی آواز کا حصہ ہے۔مسٹر خشوگی یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’ تم مجھے قتل کرنے جارہے ہو؟ تم مجھے غائب کرنے جارہے ہو؟‘‘
۔رپورٹرس نے پھر آگے لکھا کہ مسٹر مرتب نے کہاکہ وہ انہیں’’ معاف کردیں‘‘ گے اگر وہ تعاون برتنے کاکام کرتے ہیں ۔پھر مسٹر متریب نے پانچ سعودی ایجنٹوں کو مسٹر خشوگی پر چھلانگ لگانے کو کہا۔
ان میں سے ایک ایجنٹ جس کے متعلق کتاب میں کہاگیا ہے کہ وہ ’’ طاہار غالب الحربی ‘‘ تھا مسٹر خشوگی کے منھ کو ڈھانکنے کی کوشش کررہاتھا ‘رپورٹرس نے لکھا کہ مگر اڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر خشوگی اس پر بھاری پڑ رہے تھے‘۔
جدہ میں ولی عہد کے پیالیس میں پچھلے سال ہی ترقی کے بعد شاہی سکیورٹی گارڈ کے حربی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کتاب میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اس گروپ میں سعاد الزاہرانی ایک اور شاہی گارڈ بھی شامل تھے۔
بالآخر قاتلوں نے مسٹر خشوگی کے سر پر پلاسٹک بیاگ لگانے میں کسی طرح کامیاب ہوگئے ایسا کتاب میں لکھا ہے۔ دم گھٹنے میں محض پانچ منٹ لگے اور اڈیو ریکارڈنگ کے مطابق مسٹر خشوگی کے آخری الفاظ ’’ میرے چہرے مت ڈھانکو ‘ مجھے آستھما ہے۔
تم مجھے ختم نہیں کرسکتے‘‘۔کتاب میں لکھا ہے کہ عمارت میں داخل ہونے کے دس منٹ کے اندر مسٹر خشوگی 1:24کو مر گئے ۔خشوگی کی موت کے بعد مصطفے المدنی کو خشوگی کے ہمشکل کے طور پر بھیجا گیا اور سیف سعاد القعطانی نے ان کے کپڑے نکالے۔
مسٹر حربی اور مسٹر زہرانی نے مسٹرتوبیگی کی نعش کوٹھکانے لگانے میں مدد کی