حافظ محمد ہاشم صدیقی
ربیع الاول میں تشریف لانے والے محسنِ کائنات نے انسانوں کے لئے جو دستورِ زندگی دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں بلکہ اللہ کے رسولؐ نے ایک ایک حکم پر عملی طور پر عمل فرماکر، دستورِ حیات کو نافذ کرکے دکھادیا حتیٰ کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے ، وہ مصطفیٰ جانِ رحمت کی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین نمونہ (مثال) ہے،یہ نمونہ اس کے لئے ہے جو اللہ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتاہے ۔ (سورۃ الاحزاب) ۔ رسول اللہ کی زندگی تمہارے لئے ہر موڑ پررہنمائی ہے اور ہر مرحلہ پر عمل کرنا اور آپ کی تعلیمات پر کاربند ہونا اور تمہارے لئے رسول کی زندگی ہی نمونۂ عمل ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر صرف قرآن نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کی تبلیغ کرنے کے لئے اپنے محبوب کومنتخب فرمایا تاکہ وہ ارشاد ربانی پر خود عمل کرکے دکھائیں، آپ ؐ پر ایمان لانے والے بھی آپؐ کی زندگی کو نمونہ مان کر عمل پیرا ہوں۔ اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور انسانی آبادی ساری ترقیوں اور سہولتوں کے باوجود جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کی جو گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے،فلسطین ، مصر ،عراق، ایران، پاکستان ، افغانستان ،روہنگیا وغیرہ میں خون کی ارزانی ہے، اس کا علاج اگر کہیں مل سکتا ہے تو اسی پیغامِ محمدی ؐکے دستور ِحیات میں ہے۔
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے ذاتی نام احمد اور محمد(ﷺ) ہیں۔ صفاتی نام بہت سے ہیں ۔ مشہور نام ۹۹ہیں جن میں سے مصطفیٰؐ، مجتبیٰ، حامد ، محمود، قاسم، صادق، امین ہیں۔ آپ نے فرمایا:میں سید الاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہوں۔اسی لئے آپ ﷺکالقب سید المرسلین، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہے۔ ۵۷۰ء بروز پیر بوقت صبح آپؐ مکہ میں پیدا ہوئے۔بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت کیلئے فلاح کی راہ دکھانے دستورِ زندگی لے کر آپ ﷺ تشریف لائے جو ہر قوم و ہرملک کے لوگوں کے لئے نسخۂ اکسیر ہے ۔ اُس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا۔ کرئہ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے۔ حضورؐنے خطبہِ حجتہ الوداع میں واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمایا : ’’اے لوگو! خبر دار ہوجاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ(حضرت آدم ؑ) ایک ہے،کسی عرب کو غیر عرب پر اورکسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے‘‘ ۔ آپ ﷺنے مزید ارشاد فرمایا: ’’تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پید اکئے گئے ہیں۔‘‘(مسند احمد ،کنز العمال)۔
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، رنگ، نسل، جنس ، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی بار تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہرسال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میں ملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دستورِ حیات میں عزت و شرف کا معیار امیر و غریب، قوم و قبیلہ کونہیں بلکہ حسنِ کردار ( اخلاق) کو بتایا گیا ہے۔