طلاق ثلاثہ قانون کے جواز کا جائزہ لینے سے سپریم کورٹ کا اتفاق

   

پہلے سے کالعدم عمل کو روکنے قانون کی کیا ضرورت، شوہر کو تین سال قید کی سزاء دستور کی خلاف ورزی کے مترادف

نئی دہلی۔23 اگست (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے حال ہی میں وضع کردہ ایک جدید قانون کے جواز کا جائزہ لینے سے جمعہ کو اتفاق کرلیا۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں میں تین طلاق کے عمل کو مستوجب سزاء جرم بنایا گیا ہے اور مرتکب افراد کو تین سال کی قید کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ جسٹس این وی رمنا اور جسٹس اجئے رستگوگی نے ایسی کئی درخواستوں پر مرکز کو نوٹس جاری کی ہے جن درخواستوں میں مسلم خواتین (تحفظ حقوق ازدوراج) قانون 2019ء کو اس بناء پر غیر دستوری قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے کہ اس سے دستوری دفعات کی مبینہ طور پر خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بنچ نے درخواست گزاروں کی طرف سے رجوع ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے کہا کہ ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ سلمان خورشید نے کہا کہ (تین طلاق کے) اس عمل کو قابل سزاء جرم بنانا اور تین سال کی قید کے بشمول ایسے کئی زاوئیے ہیں جن پر عدالت عظمی کی طرف سے جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں کو بالخصوص مسلمانوں میں تین طلاق کے عمل کو جرم قرار دیئے جانے پر تشویش ہے کیوں کہ عدالت عظمی اس کو پہلے ہی منسوخ و کالعدم قرار دے چکی تھی۔ انھوں نے بنچ سے کہا کہ اگر تین طلاق جیسی کوئی چیز ہی نہیں ہے تو پھر اب وہ کس چیز کو جرم مان رہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کے عمل کو پہلے ہی منسوخ و کالعدم قرار دیا جاچکا۔ جس پر بنچ نے ان سے دریافت کیا کہ فرض کیجئے اگر کسی مذہبی عمل کو منسوخ و کالعدم قرار دیا جاچکا ہے اس کو مزید جہیز کے مطالبے اور بچوں کی شادیوں کی طرح جرم قرار دیا جاچکا ہے جس کے باوجود بھی اگر یہ جاری رہے تو اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان خورشید نے کہا کہ اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور جہاں تک طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے دستوری بنچ پہلے ہی اس کو منسوخ و کالعدم قرار دے چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ آیا اس عمل سے کس عورت کو حقوق سے محروم ہوسکتی ہے۔ بنچ نے 2019ء کے اس قانون کے جواز کا جائزہ لینے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے تین سال کی سزائے قید کا مسئلہ اور صرف مطلقہ عورت کی عدالت میں سماعت کے بعد ہی شوہر کے لیے ضمانت کی منظوری کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔طلاق ثلاثہ قانون کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے مجموعی طور پر چار درخواستیں عدالت عظمی میں دائر کی گئی ہیں۔ کیرل کے سنی مسلم علماء کی ایک تنظیم سمستھا کیرالا جمعیۃ العلماء اور جمعیۃ العلماء ہند جیسی دو مسلم تنظیموں نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔