پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ، با برکت بنا دیا ہے ہم نے جس

   

(ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ، با برکت بنا دیا ہے ہم نے جس کے گرد و نواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں … (سورۃ بنی اسرائیل ۔۱) 
اس آیت کریمہ میں حضور فخر موجودات سید کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک عظم الشان معجزہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق عقل کوتاہ اندیش اور فہم حقیقت ناشاس نے پہلے بھی ردوقدح کی اور آج بھی واویلا مچا رکھا ہے اس لیے اس مقام کا تقاضا یہ ہے کہ تطویل لاطائل سے دامن بچاتے ہوئے ضروری امور کا تذکرہ کر دیا جائے تاکہ حق کی جستجو کرنے والوں کے لئے حق کی پہچان آسان ہو جائے اور شکوک و شبہات کا جو غبار حسن حقیقت کو مستور کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے ۔ اس کا سدباب ہو جائے۔جس روز صفا کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے اور برگزیدہ رسول نے قریش مکہ کو دعوت توحید دی تھی ۔ اسی روز سے عداوت و عناد کے شعلے بھڑکنے لگے تھے۔ ہر طرف سے مصائب و آلام کا سیلاب اُمڈ کر آگیا تھا۔ رنج و غم کا اندھیرا دن بدن گہرا ہوتا چلا جاتا تھا۔ لیکن اس تاریکی میں حضرت ابوطالب اور ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کا وجود مسعود ہرنازک مرحلہ پر تسکین و طمانیت کا سبب بنا کرتا تھا۔ بعثت نبوی کے دسویں سال مہربان و شفیق چچا نے وفات پائی۔ اس جانکاہ صدمہ کا زخم ابھی مندمل نہ ہونے پایا تھا کہ مونس و ہمدم دانشور عالی حوصلہ رفیقہ حیات حضرت خدیجہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ کفار مکہ کو اب ان کی انسانیت سوز کارستانیوں سے روکنے والا اور ان کی سفاکانہ روش پر ملامت کرنے والا بھی کوئی نہ رہا جس کے باعث ان کی ایذا رسانیاں ناقابل برداشت حد تک بڑ ھ گئیں۔