’’آئیں مسجدیں آباد کریں ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
اسلام میں عبادت کے ساتھ علم کو جوڑ دیا گیا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : علم حاصل کرو خواہ اُس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ سچ تو یہ ہے کہ علم دُنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے ۔ قدرت کے تمام رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا ہے ۔ دُنیا کی تمام تر وسعتیں آج انسان کے سامنے سمٹ گئی ہیں۔ انسان خلاء کی وسعتوں پر حاوی ہے ۔ وہ فضاء میں پرواز کرسکتا ہے یہ علم کا کرشمہ ہی ہے کہ جس پر عمل کرکے ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سُنتے اور دیکھتے ہیں ۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے قائدین نے علم کے ذریعہ ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے ۔ ہمارے بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھاتے رہے ۔ غرض سقراط ہو یا ، یا بقراط ، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی ۔ آج بھی اُن کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے ۔ علم سے ہی انسان کے اخلاق پاکیزہ ہوتے ہیں اور عادات شائستہ ، علم دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اُس مقام تک پہنچادیتا ہے جہاں حسد و بغض دُشمنی و لالچ کا گذر نہیں ہوتا بلکہ انسان کو نیکی ، خلوص ، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے ۔ قرآن مجید کی پہلی آیت بھی عِلم کے تعلق سے نازل ہوئی ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ سے مخاطب ہے ’’پڑھیئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اُسے کوئی علم نہ تھا ۔ ( سورۃ العلق ) اور یہی آیت ہم اپنے بچوں کی رسمِ ’’بسم اﷲ ‘‘ میں اُن سے پڑھواتے ہیں تاکہ اﷲ تعالیٰ اُن کے لئے علم کی راہیں ہموار کردے ۔ یاد رکھئے مسجد نبویﷺ میں آپؐ نماز کی ادائیگی کی جگہ سے لگ کر ایک بڑا چبوترا ’’صفہ ‘‘ بنایا تھا جو دن کو کلاس روم کا کام دیتا تھا اور رات کو اقامت گاہ کے طورپر استعمال ہوتا تھا گویا کہ یہ پہلی اسلامی یونیورسٹی تھی جو تعلیم کےساتھ اصلاحی ، فلاحی ، سماجی اور اشاعت دین کے خدمات کا مرکز تھی ۔
میں نے امریکہ ، انگلینڈ ، یوروپ اور کینیڈا میں بسے مسلمانوں کو دیکھا کہ اُنھوں نے سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مساجد کو ایک تنظیم یا ایک ادارہ کی طرح قائم کیا ہے جس کے زیرنگرانی پرائمری اسکول ، پرائمری ہیلتھ کیر سنٹر ، کونسلنگ سنٹر ، کمیونٹی سنٹر چلتے ہیں جو لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں اور یہ سب کام شفافیت کے ساتھ انجام پاتے ہیں جو ہر مسئولہ ڈپارٹمنٹ سے مربوط ہوتے ہیں ۔ ان اسلامی مراکز کا پولیس کے ساتھ ہاٹ لائن سے رابطہ رہتا ہے ۔ اس بات کا خاص طورپر خیال رکھا جاتا ہے کہ آس پاس کے رہنے والوں کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو ۔ خاص طورپر پارکنگ کے تعلق سے نماز کے اوقات کے دوران اور دوسری سرگرمیوں کے دوران ۔ اب ہمارا حال پڑھئے ۔ دو جمعہ پہلے کی بات ہے ، ایک صاحب مسجد حُسینی ، بنجارہ ہلز میں عین جمعہ کی نماز کے وقت پہنچے ۔ بیچ سڑک پر اپنی گاڑی روک کر جلدی جلدی اندر نماز پڑھنے چلے گئے ۔ اُن کے اس غیرذمہ دارانہ حرکت سے روڈ پر ساری ٹرافک درہم برہم۔ ہماری انہی حرکتوں سے ہم بدنام ہوتے جارہے ہیں اور غیرمسلم ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی اپنی مسجدوں کو روایتی عبادت گاہ کے علاوہ ایک ادارہ کی طرح آباد کریں جن میں تعلیمی ، اصلاحی ، فلاحی ، سماجی سرگرمیاں بھی چلتی رہیںجیسا کہ ہمارے مسلمان بھائی مغربی ممالک میں چلارہے ہیںجو بلالحاظ مذہب و ملت ، سب کے لئے فائدہ مند ہوں ۔ مساجد کے و دیگر ذمہ داران کے اشتراک سے یہ خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔ میری بالخصوص ہر شعبہ کے نوجوان مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ رضاکارانہ طورپر آگے آئیں اور اپنی اہلیت اور قابلیت کے مطابق اپنی خدمات پیش کریں۔