آدتیہ ناتھ کی حکومت ۔ جنگل راج

   

ہمارے پاس وہ آتے تو کس طرح آتے
کوئی تو بات بنانے کے بعد آئے ہیں
آدتیہ ناتھ کی حکومت ۔ جنگل راج
اترپردیش کے حالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہاں جنگل راج کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ آئے دن یہاں انسانیت سوز ‘ بے رحمانہ اور دلوں کو خوفزدہ کردینے والے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت ان واقعات کو روکنے میں نہ صرف پوری طرح ناکام ہوگئی ہے بلکہ یہ حکومت ایسے واقعات کو عملا نظر انداز کرنے اور ایسا کرنے والے درندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں بچانے کیلئے کوشش کر رہی ہے ۔ حکومت صرف من مانی انداز میں کارروائیاں کرتے ہوئے یہاں اپنے ایجنڈہ کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ریاست کے عوام پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ہر چند منٹ میں ایک لڑکی کی عصمت ریزی ہوتی ہے ۔ اس کا قتل ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ انسانیت سوز حرکتیں کی جاتی ہیں اور یو پی حکومت یہ رپورٹ دینے سے گریز نہیں کرتی کہ لڑکی کی عصمت ریزی نہیں ہوئی ہے ۔ خاطیوں کو گرفتار کرنے اور سزائیں دینے کی بجائے متوفی لڑکی کی نعش کو رات کے آخری پہر میں رشتہ داروں اور گھر والوں کی مرضی کے خلاف نذر آتش کردیا جاتا ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ریاست میں سب کچھ ٹھیک ہے ۔ اگر فرضی اور زر خرید میڈیا نے اپنی بے شرمی اور بے حسی کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے ایسے واقعات کو حقیقی معنوں میں عوام کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا تو ریاست کی آدتیہ ناتھ حکومت کی برقراری مشکل ہوجائیگی تاہم ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت ہو یا پھر آدتیہ ناتھ کی حکومت ہو انہیں جمہوری اقدار ‘ عوامی مسائل ‘ عوام کے احساسات ‘ اپوزیشن کے وجود اور جمہوری اصولوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں رہ گئی ہے اور وہ صرف اپنے اقتدار کے نشے میں دھت ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب انہیں کرسی سے کوئی اتار نہیں پائے گا اور وہ اپنی من مانیوں کا سلسلہ یونہی جا ری رکھیں گے ۔ حکومت تو خود متاثرین کی مدد کرنے سے قاصر ہے اور انہیں کسی طرح کی تسلیاں یا دلاسے بھی نہیں دے رہی ہے اور تسلی دینے کیلئے اگر اپوزیشن کے قائدین جانا چاہتے ہیں تو انہیں بھی روکا جاتا ہے ۔ ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔
اترپردیش جرائم کی راجدھانی بنتاجا رہا ہے ۔ خاص طور پر آدتیہ ناتھ کی حکومت میں خواتین بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ آئے دن یہاں عصمت ریزی اور قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ متاثرہ لڑکیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے ۔ کچھ واقعات میں تو بی جے پی کے قائدین تک بھی ملوث ہیں۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہونے والے کلدیپ سنگھ سینگر عصمت ریزی کے الزام میں جیل میں ہیں۔ سابق مرکزی وزیر چنمیانند پر بھی عصمت ریزی کا الزام ہے ۔ وہ بھی جیل کی ہوا کھاچکے ہیں۔ ریاست کے ہر شہر اور ہر ضلع میں ایسا لگتا ہے کہ درندے گھوم رہے ہیں۔ خواتین کا گھروں سے نکلنا بند ہوگیا ہے ۔ جو نعرہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے بیٹی بچاو کا دیا تھا ایسا لگتا ہے کہ وہ نعرہ نہیں انتباہ تھا ۔ اب ملک بھر میں اور خاص طور پر آدتیہ ناتھ کی حکومت میں بیٹی کو بچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر یہ بیٹی دلت کی یا اقلیتوں کی ہے تو اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت ریاست میں رام راج لانے کی بات کرتی ہے لیکن یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ریاست میں جنگل راج آگیا ہے ۔ ہر طرف لاقانونیت ہے اورقتل و خون کا بازار بھی گرم ہے اس کے باوجود چیف منسٹر اور دوسرے ذمہ داران حکومت انتہائی لاپرواہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہیں متاثرین سے نہ کوئی ہمدردی رہ گئی ہے اور نہ ہی وہ تسلی و دلاسے کے چند الفاظ کہنے کو تیار ہیں۔ اس کے برخلاف متاثرین کو ہی رسواء کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
ریاست میں حالات اس حد تک ابتر ہوگئے ہیں کہ یہاں اب صدر راج کے نفاذ کے امکانات کو بھی تلاش کرنا چاہئے ۔ یہ نہیں دیکھا جانا چاہئے کہ جس پارٹی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہے اسی پارٹی کی ریاست میں بھی حکومت ہے ۔ اگر مودی حکومت کو ریاست کے عوام اور خاص طور پر خواتین و لڑکیوں سے ذرہ برابر بھی ہمدردی ہے تو آدتیہ ناتھ حکومت کی سرزنش کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کے واقعات پر رپورٹ طلب کی جانی چاہئے ۔ ایسے واقعات کیلئے عہدیداروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ خاطیوں کو سر عام پھانسی دی جانی چاہئے ۔ اس میں اعلی ذات یا نچلی ذات کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت کا وجود بے معنی ہوگا۔