آزاد ہندوستان اور اس کی ذمہ داریاں

   

تیری منزل کا نشاں نقشِ محبت تو نہیں
دُور تک راہِ وفا میں مجھے جانا ہے ابھی

آزاد ہندوستان اور اس کی ذمہ داریاں
آج یوم آزادی ہند ہے ۔ وطن عزیز کو آزاد ہوئے 74 سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور اس عرصہ میں ہندوستان نے نمایاں پیشرفت کی ہے ۔ خاطر خواہ ترقی حاصل کی ہے ۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد وطن عزیز نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے اور ہر طریقے سے دنیا سے مسابقت کے موقف میں آگیا ہے ۔ آج ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بن گیا تھا تاہم کورونا کی وباء نے ساری دنیا کی طرح ہندوستان پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور ہندوستان کی پیشرفت متاثر ہوئی ہے ۔ تاہم اگر ہم آج بھی اپنے ملک کے داخلی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے جو ترقی اور پیشرفت کی ہے وہ یقینی طور پر قابل قدر ہے اور ہم دنیا سے آنکھ ملانے کے موقف میں ہیں تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں ۔ عالمی سطح پر ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہمسر بنتے جارہے ہیں تاہم اندرون ملک ہمیں حالات کو بہتر بنانے کیلئے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے مجاہدین آزادی نے جس ہندوستان کا خواب دیکھتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں اور جس ہندوستان کی خاطر انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انہیںہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ہم اس ہندوستان کی تعمیر کو یقینی بنائیں۔ ہمیں ایک ایسا ہندوستان تعمیر کرنا ہے جس میں نہ کوئی بھید بھاو ہو اور نہ کوئی ذات پات کا مسئلہ ہو ‘ نہ کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کیا جائے ۔ ہر ہندوستانی کو امن و چین کی اور پرسکون و خوشحال زندگی فراہم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیںاس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی بھوکا پیاسا نہ رہے ۔ نہ کسی کو دلت ہونے کی وجہ سے کسی موقع سے محروم کیا جائے اور نہ کسی کو اقلیت ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔ نہ کسی کو اپنے ہمسایہ کی وجہ سے کوئی خوف ہو اور نہ کسی کو کسی سے کوئی باہمی رنجش ہونے پائے ۔ یہی وہ ہندوستان ہے جس کا خواب مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا ۔
آزادی کے 74 برس بعد بھی آج کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر ہمیں خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی ملک میں دلتوں پر مظالم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ انہیں ان کی زمینوں سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ ان کی خواتین کے بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ آج بھی چھوت چھات جیسی لعنت پائی جاتی ہے جس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے ۔ یہ درست ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے بہت کچھ کیا گیا ہے تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس معاملے میں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بھی ہمارے ملک میںکئی بچے غیرتغذیہ بخش غذا کی وجہ سے کم عمری ہی میں اپنی جان گنوادیتے ہیں۔ آج بھی کئی ایسے مائیںہیں جنہیں خود تغذیہ بخش غذا نہیں ملتی ۔ آج بھی ایسے لاکھوں خاندان ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ آج بھی ایسے بے شمار گاوں ہیں جہاں برقی اور پانی کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیںہیں۔ آج بھی کئی ایسے گاوں ہیں جہاںبیت الخلا کی سہولت تک بھی دستیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ آج بھی ایسے شہر ہیں جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ ان سارے مسائل پر ہماری اور حکومت کی توجہ ہونی چاہئے ۔ ان مسائل کی یکسوئی کے بغیر ہم اس ہندوستان کی تعمیر نہیں کرسکتے جس کا خواب ہمارے مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا اور اس کیلئے انہوں نے اپنی زندگیوں اور جانوں کی پرواہ کئے بغیر انگریزی سامراج کے آگے سینہ سپر ہوگئے تھے ۔ ہمیں انہیںخراج پیش کرنا ہے ۔
ہمیں اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا ہے کہ ہم نے آزادی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے ۔ ہمیںاس آزادی کا اپنی جان کی بازی لگاکر بھی تحفظ کرنا ہے ۔ ہمیں ساری دنیا میں مثال پیش کرنے والا ہندوستان تعمیر کرنا ہے ۔ ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہے جہاں عالمی سطح پر ہندوستان کی ایک انفرادیت ہو اور اس کا احترام کیا جائے ۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم آپس میں متحد نہیں ہونگے اس وقت تک دنیا کے سامنے ہم سرخرو نہیں ہوسکتے ۔ ہمیں ملک کے دستور اور قانون کے مطابق ملک کی تعمیر کیلئے جدوجہد میںمزید عزم و حوصلے کے ساتھ سرگرم ہوجانے کی ضرورت ہے ۔ یہی وہ ہندوستان ہوگا جس کا خواب ہمارے مجاہدین نے دیکھا تھا ۔