آندھراپردیش میں اقتدار پر واپسی کیلئے چندرا بابو نائیڈو کی کوشش

   

راہول دیولاپلی
آندھراپردیش اسمبلی انتخابات میں اس مرتبہ سخت مقابلہ کا امکان ہے ۔ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی اور ان کی وائی ایس آر سی پی کو ایک دو نہیں بلکہ چار چار سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کا سامنا ہے ۔ ایک طرف چندرا بابو نائیڈو کی زیر قیادت تلگو دیشم ، پون کلیان کی جنا سینا اور بی جے پی پر مشتمل اتحاد سے جگن موہن ریڈی کو نمٹنا پڑے گا تو دوسری طرف ان کی اپنی سگی بہن شرمیلا کی زیر قیادت کانگریس بھی ان کیلئے درد سر بن سکتی ہے ۔ ایک بات ضرور ہے کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں جگن موہن ریڈی کی پارٹی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ساتھ ہی 2019 کے عام انتخابات میں بھی اس نے غیر معمولی مظاہرہ کیا تھا۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں وائی ایس آر سی پی کو اسمبلی کی 175 حلقوں میں سے 151 پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ چندرا بابو نائیڈو کی تلگو دیشم کو 23 حلقوں میں ہی کامیامی مل پائی تھی ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی وائی ایس آر سی پی نے 25 نشستوں میں سے 22 حلقوں پر کامیابی حاصل کر کے تمام سیاسی پنڈتوں کو حیران و پریشان کردیا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کے اثر کو کم سے کم کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ یہاں کے لوگ بڑے ہی نرم گفتار ہیں ، مقامی لوگوں کو حیدرآباد سے کہیں زیادہ بنگلورو اور چینائی میں ملازمتوں کے مواقعوں کے بارے میں فکر لاحق ہوتی ہے کیونکہ کپم سے بنگلور کا فاصلہ 120 کیلو میٹر ہے اور چینائی 250 کیلو میٹر فاصلہ پر واقع ہے جبکہ حیدرآباد سے کپم کا فاصلہ 650 کیلو میٹر ہے ۔ ایسے میں فطری بات یہی ہے کہ لوگ قریبی علاقوں کو روزگار/ ملازمتوں کیلئے ترجیح دیں گے لیکن اب الیکشن کا وقت ہے اور سیاست نے لوگوں کی سوچ و فکر میں مرکزی حیثیت حاصل کرلی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ کپم علاقہ رائلسیما کے ضلع چتور کا حصہ ہے ۔ ہم کپم کے بارے میں آپ کو اس قدر زیادہ تفصیلات اس لئے بتا رہے ہیں کہ حلقہ اسمبلی کپم تلگو دیشم پارٹی کے سربراہ این چندرا بابو نائیڈو کا گڑھ ہے ، انہیں 8 مرتبہ رکن اسمبلی اور تین مرتبہ چیف منسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اس حلقہ میں لوگ چندرا بابو نائیڈو کے بارے میں کم اور ان کی بہ نسبت دو خواتین کے بارے میں بہت زیادہ بات کر رہے ہیں یعنی دو خواتین اس حلقہ کے عوام میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ انتخابات کا مئی میں انعقاد عمل میں آئے گا ۔ وائی ایس آر سی پی کے سربراہ اور چیف منسٹر جگن موہن ریڈی چاہتے ہیں کہ چندرا بابو نائیڈو کو ان کے اپنے آبائی حلقہ میں شکست سے دوچار کردیں۔ چنانچہ پدمنی درگا رائے دہندوں بالخصوص خاتون رائے دہندوں کو وائی ایس آر سی پی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ وہ دراصل گراؤنڈ ورک کا ایک حصہ ہے ۔ بہرحال حلقہ اسمبلی کپم میں درگا اور بھونیشوری رائے دہندوں کی تائید و حمایت اپنے شوہروں کے حق میں کرنے کیلئے ایک جنگ چھیڑ چکی ہیں ۔ گزشتہ سال کرپشن کیس میں نائیڈو کی گرفتاری کے بعد بھونیشوری منظر عام پر آئیں اور اپنے شوہر کی حمایت میں مظاہرے بھی کئے ۔ انہوں نے سچائی ثابت ہوگی جیسی مہم کا آغاز بھی کیا ۔ اس مہم کے حصہ کے طور پر بھونیشوری نے ریاست آندھراپردیش کے مختلف مقامات کا دورہ کرتے ہوئے ان افراد کے ورثا سے ملاقات کی جو چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے موت کے منہ میں پہنچ گئے ۔ چونکہ آندھراپردیش اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات ایک ساتھ ہونے والے ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو اپنے حلیفوں بی جے پی اور پون کلیان کی جنا سینا پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں کہ ان کے ساتھ اتحاد کے ذریعہ وہ جگن کو شکست فاش دے سکتے ہیں اور اقتدار پر واپس ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تلگو دیشم کی سب سے اہم اتحادی جماعت بی جے پی ہے ۔ مارچ 2018 میں جب وہ چیف منسٹر تھے ، چندرا بابو نائیڈو نے بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے سے اپنا ناطہ توڑلیا تھا ۔ اس کیلئے انہوں نے یہ عذر پیش کیا تھا کہ مرکزی حکومت آندھراپردیش کو خصوصی درجہ دینے میں ناکام رہی ۔ اس کے بعد منعقدہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں تلگو دیشم کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ وہ 175 اسمبلی حلقوں میں سے صرف 23 میں کامیاب ہوسکی جبکہ لوگ سبھا کی تین نشستوں پر اس کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں ناکامی کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے اپنی حکمت عملی اور اپنی روش تبدیل کردی چنانچہ گزشتہ 5 برسوں سے وہ اور ان کی پارٹی نے بی جے پی پر تنقید کرنے سے گریز کیا اور خود کو اپوزیشن اتحاد انڈیا بلاک سے بھی دور رکھا ۔ ساتھ ہی زعفرانی پارٹی کو وقفہ وقفہ سے صلح کے پیغامات بھی پہنچاتی رہی ۔ وہ جو بھی کرتے ہیں بہت ہی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت بی جے پی سے اتحاد کی بات ہورہی تھی ،ا س وقت تلگو دیشم اور بی ایس پی نے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر کے بی جے پی پر تھوڑا بہت دباؤ بنا رکھا اور جب بی جے پی نے 25 پارلیمانی حلقوں میں سے 10 نشستیں اسے دیئے جانے کی مانگ کی، حالانکہ آندھراپردیش میں اس کا ووٹ شیئر بہت کم ہے ، وہاں پر بھی چندرا بابو نائیڈو نے بڑے تدبر سے کام لیتے ہوئے 6 پارلیمانی نشستیں بی جے پی کو دینے سے اتفاق کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کا واحد مقصد لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہے اور اس کاز کیلئے اسے تلگو دیشم جیسے طاقتور اتحادی کی ضرورت تھی۔ ساتھ ہی این ڈی اے اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ بھی اس کے مفادات میں ہوجائے۔ دوسری طرف بی جے پی سے اتحاد کے ذریعہ نائیڈو مرکز میں برسر اقتدار جماعت کی شکل میں تخلیق کے خلاف ایک سہارا مل گیا کیونکہ اگر اسمبلی انتخابات میں جگن موہن ریڈی کو کامیابی بھی مل جاتی ہے تو پھر اسے بی جے پی کی شکل میں ایک آسرا مل جائے گا ۔ اب تلگو دیشم کیلئے ایک چیلنج پیدا ہوگیا ہے اور وہ ہے بی جے پی سے اس کے اتحاد کے نتیجہ میں اقلیتیں اس سے دور ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹکٹ کے خواہاں لیڈروں میں ناراضگی بھی پائی جاسکتی ہے ۔ چندرا بابو کیلئے یہ بھی ایک چیلنج ہوگا کہ وہ آندھراپردیش کو خصوصی درجہ دلانے سے متعلق کیا موقف اختیار کریں گے۔