آندھراپردیش میں مسلم ووٹ تقسیم کرنے کی تیاریاں

   

کے سی آر اور مقامی حلیف جماعت کی خدمات، مسلم آبادی والے علاقوں میں مقابلہ کا امکان
حیدرآباد ۔ 18 ۔ جنوری (سیاست نیوز) ملک میں غیر کانگریس اور غیر بی جے پی محاذ کے قیام کے سلسلہ میں چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کی سرگرمیوں نے آندھراپردیش کی سیاست کو گرمادیا ہے۔ گزشتہ دنوں کے ٹی آر کی جگن موہن ریڈی سے ملاقات کے بعد آندھراپردیش کی سیاست میں ٹی آر ایس کی دخل اندازی کے اشارے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں چندرا بابو نائیڈو کی مہم کا جواب دینے کیلئے کے سی آر نے ریٹرن گفٹ کا پہلے ہی اعلان کردیا ہے ۔ اب تو وہ آندھراپردیش کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تلگو دیشم کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے نہ صرف کے سی آر بلکہ ان کی حلیف حیدرآباد کی مقامی جماعت بھی متحرک ہوسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کے سی آر نے جو منصوبہ تیار کیا ہے ، اس کے تحت مجلس آندھراپردیش کے ان علاقوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرے گی جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ تلگو دیشم کے مسلم ووٹ بینک کو منقسم کرتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ فیڈرل فرنٹ کے قیام کے اعلان کے ساتھ کے سی آر نے کہا کہ وہ مجلس کے صدر اسد اویسی کے ہمراہ تمام ریاستوں کا دورہ کریں گے ۔ اس کے فوری بعد اسد اویسی نے چندرا بابو نائیڈو کو دھمکی دی اور کہا کہ وہ آندھراپردیش آرہے ہیں۔ کے ٹی آر کی جگن سے ملاقات کے بعد قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں مجلس کو اقلیتی آبادی والے حلقوں میں مقابلہ کیلئے آمادہ کیا جائے گا ۔ توقع ہے کہ مجلس کرنول ، اننت پور اور کڑپہ میں اسمبلی کے لئے اپنے امیدوار میدان میں اتارے گی۔ ان اضلاع میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے ۔ اس کے علاوہ گنٹور کے بعض حلقوں میں مسلم ووٹ تقسیم کرنے کیلئے مہم چلائی جاسکتی ہے۔ فیڈرل فرنٹ کے قیام کے سلسلہ میں کے سی آر نے مقامی جماعت کو اپنے ساتھ رکھنے کا جو اعلان کیا، اس سے سیاسی مبصرین یہ تبصرہ کرنے لگے کہ مجلس کو ٹی آر ایس کے حریفوں کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ آندھراپردیش میں تلگو دیشم جبکہ تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے اسی حکمت عملی پر عمل کئے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ اسی دوران کے ٹی آر کی جگن سے ملاقات کے بعد وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے حلقوں میں یہ بحث چھڑگئی ہے کہ آیا ٹی آر ایس کی تائید کے سبب آندھراپردیش میں کیا واقعی فائدہ ہوگا ؟ جس طرح تلنگانہ میں چندرا بابو نائیڈو کی انتخابی مہم سے کانگریس کو نقصان ہوا ، ہوسکتا ہے کہ کے سی آر کی تائید اور آندھراپردیش میں مہم سے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جگن موہن ریڈی سے اس معاملہ کا جائزہ لینے کیلئے پارٹی کے سینئر قائدین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔