آگ بجھ گئی ‘ سلگتے رہ گئے اپنوں کے کھونے کا غم

,

   

آگ کی شدت سے کھلی وقت پر نیند ‘ تو بچ گئی جان۔

نئی دہلی/کرول باغ۔ یہ موت کی آگ تھی جس کی تپش نے نیند سے جگایا۔ پھر جو منظر دیکھا اس کو لڑکھڑتے زبان سے بیان بھی نہیں کر پاررہتے تھے 58سال کے دلیت ترویدی۔گجرات میں احمد آباد کے ساکن دلیپ خود کو خوش قسمت مان رہے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔

بیشک ان کے دو موبائیل فون اس افرتفری میں یہ توچوری ہوگئی یاغائب ہوگئے۔منگل کے روز ہوٹل کے باہر اپنے سامان کے ساتھ کھڑے دلیپ ترویدی نے بتایا کہ وہ احمد آباد میں ایک کمپنی کے مارکٹنگ ڈویثرن منیجر ہیں۔منگل کے روز ہیڈ افس میں میٹنگ کے لئے بلایاگیاتھا۔

ویسے تو بغل والی ہوٹل میں بکنگ تھی۔ لیکن وہاں روم بھر جانے کی وجہہ سے ہوٹل انتظامیہ نے پڑوس کی ہوٹل میں ٹہرانے کا انتظام کرایا۔دلیپ پہلی منزل کے روم نمبر101میں ٹہرے ہوئے تھے۔سب کچھ ٹھیک تھا۔ صبح اچانک انہیں اپنے روم میں گرمی کی شدت محسوس ہوئی۔

باہر نکل کر دیکھا تو شوروغل‘ دھواں اور افرتفری کا ماحول تھا۔کچھ لوگوں کو ڈر کی وجہہ سے اوپر کی جانب بھاگتے ہوئے بھی دیکھا۔خوف کے ماحول میں کئی لوگ اوپر کی منزل کی طرف بھاگ رہے تھے۔ کئی لوگ تو خوف ناک منظر دیکھ کر چوتھی منزل سے جان بچانے کے لئے چھلانگ لگارہے تھے۔

دھویں کی وجہہ سے کئی لوگوں کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ لیکن میں اسقدر خوف میں تھا کہ کھڑکی سے لٹک گیا او رکود کر جان بچائی۔

صبح ٹی وی پر گھر والو ں نے جب نیوز دیکھی کال کرنے لگے۔ مگر میرا فون غائب تھا۔ میں نے کسی کا فون لے کر گھر والوں کو فون کرکے بتایا کہ میں محفوظ ہوں۔