آیا امریکہ اور چین ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہو رہے ہیں

   

اسٹانلی جانی
حالیہ عرصہ کے دوران دیکھا گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں زبردست کشیدگی آئی ہے۔ دونوں ملکوں کے صدور ایک دوسرے کے ملک کے خلاف الزامات عائد کرتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب چینی عہدہ داروں اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو کے درمیان بھی لفظی جنگ جاری ہے۔ جہاں تک امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چینی صدر ژی جن پنگ کے تدبر و فراست اور بصیرت کا سوال ہے ڈونالڈ ٹرمپ بار بار چین کو کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے چین کو چینی مصنوعات پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ یہاں تک کہ عالمی ادارہ صحت جیسے ادارے کو بھی ٹرمپ نے آڑے ہاتھوں لیا اور اسے چین کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے 30 دن کی مہلت دی ہے ورنہ ٹرمپ کے مطابق امریکی کی جانب سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو دی جانے والی امداد ہمیشہ کے لئے بند کردی جائے گی۔ کچھ دن قبل وائیٹ ہاوز میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں چین کے مسئلہ پر پوچھے گئے سوال سے ڈونالڈ ٹرمپ اس قدر بدظن ہوئے کہ انہوں نے پریس کانفرنس کو درمیان میں ہی چھوڑ کر وہاں سے رخصت ہوجانے میں اپنی عافیت سمجھی۔ تاہم صحافیوں نے ٹرمپ کے اس اقدام کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔ اس کے برعکس چینی صدر ژی جن پنگ بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے بار بار الزامات عائد کئے جانے کے باوجود وہ ایسی چپ سادھے ہوئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہاں چین کے اعلیٰ عہدہ دار امریکی صدر اور امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کے ساتھ ساتھ امریکی کانگریس کے الزامات کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 15 مئی کو امریکی صدر نے کووڈ ۔ 19 کے مسئلہ پر چین کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس دانستہ طور پر چین نے پھیلایا ہے اور یہ وائرس اس کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔ ٹرمپ چین کے خلاف بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ اس بحران کے فوری بعد انہوں نے کورونا وائرس کو چینی وائرس سے تعبیر کیا تھا۔ ٹرمپ نے صرف یہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وائرس کی وباء کے باعث جو جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں اس کا معاوضہ طلب کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں امریکہ نے ملک میں کام کرنے والے چینی صحافیوں پر پابندیاں عائد کیں۔ ان کے کام کرنے کی مدت کو 90 دنوں تک محدود کردیا۔ پچھلے ہفتہ امریکی صدر نے امریکی سلامتی کے لئے خطرہ کا باعث بننے والی کمپنیوں کے تیار کردہ مواصلاتی آلات کے استعمال سے امریکی کمپنیوں کو روکنے کی خاطر پہلے سے ہی نافذ پابندی پر مزید ایک سال کی توسیع کردی۔ واضح رہے کہ امریکی کمپنیاں چینی کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ مواصلاتی آلات استعمال کیا کرتی تھیں۔ اس سلسلہ میں کہاجارہا ہیکہ امریکی صدر نے ہوائی اور زیڈ ٹی ای جیسی کمپنیوں کو بالواسطہ نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ چینی صدر یا وزیر اعظم ٹرمپ اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے الزامات کا جواب نہیں دیتے لیکن چین کے سرکاری میڈیا کے ذریعہ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نہ صرف نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان کا مضحکہ بھی اڑاتے ہیں۔ چینی سرکاری میڈیا نے چینی کمپنیوں کے تیار کردہ آلات کے استعمال پر عائد پابندی میں ایک سال کی توسیع کئے جانے اور کورونا وائرس کے لئے چین کو ذمہ دار قرار دیئے جانے سے متعلق ٹرمپ کے بیان کو ’’پاگل پن‘‘ قرار دیا جبکہ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو کو ایک ’’شیطان سیاست داں‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔

اپریل کے اوائل میں ریاست کی سیکوریٹی سے متعلق چینی وزارت نے ملک کے اہم رہنماؤں کو ایک داخلی رپورٹ روانہ کی جس میں کہا گیا کہ کورونا وائرس وباء کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ تعلقات شدید طور پر متاثر ہوسکتے ہیں اور تصادم میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ یہ بات عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرس کی ایک رپورٹ میں چین کے ایک اعلیٰ انٹلی جنس عہدہ دار کے حوالہ سے بتائی گئی تھی۔ چینی انٹلی جنس کمیونٹی نے اس رپورٹ کو نوویکوف ٹیلی گرام کے چینی ورژن کی حیثیت سے دیکھا۔ دراصل یہ نیکولائی نویکوف کے ایک ٹیلی گرام کی جانب اشارہ ہے جو واشنگٹن میں متعین سویت یونین کے سفیر نیکولالی نوویکوف نے ستمبر 1946 کو ماسکو کے لئے روانہ کیا تھا جس میں انہوں نے امریکی رویہ کا جائزہ لیا تھا۔ اسٹالن اور وزیر خارجہ مالٹوو کو روانہ کردہ اپنی رپورٹ میں اس وقت امریکی سفیر نے کہا تھا کہ امریکہ سارے عالم پر اجارہ داری کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ ایسے میں انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ سویت یونین مشرقی یوروپ میں ایک بفر زون قائم کرے۔ نوویکوف کا یہ ٹیلی گرام دراصل 8 ہزار الفاظ پر مشتمل اُس رپورٹ ’’لانگ ٹیلی گرام‘‘ کے جواب میں تھا جو ماسکو میں واقع امریکی سفارت خانہ میں متعین ایک اعلیٰ عہدہ دار جارج کینان نے واشنگٹن روانہ کیا تھا جس میں اس نے بتایا تھا کہ سویت یونین کے پاس بے تحاشہ ہتھیار ہیں اور وہ ساری دنیا میں کمیونزم پھیلانے کا خواہاں ہے۔ ایسے میں پرامن بقائے باہم ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں میں مورخین نے امریکی اور سویت یونین کے عہدہ داروں کی جانب سے روانہ کردہ ان ٹیلی گرامس کو ہی دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کے آغاز کا باعث قرار دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں موجودہ بحران انہیں کہاں لے جارہا ہے۔ مس راو جنہوں نے واشنگٹن اور بیجنگ دونوں مقامات پر بحیثیت ہندوستانی سفیر خدمات انجام دے چکی ہیں کہتی ہیں کہ دونوںملکوں کے درمیان تناؤ یا کشیدگی ختم نہیں ہوگی۔ امریکی صدارتی انتخابات تک یہ کشیدگی برقرار رہے گی۔ مابعد انتخابات اختلافات کی یہ گرمی سرد پڑ سکتی ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ امریکہ میں چین کے خلاف فضاء بن گئی ہے۔ عوام اور حکمراں بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ چین کو نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کا دشمن تصور کررہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو امریکہ اور سویت یونین کے درمیان کی سرد جنگ اور موجودہ حالات میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے اہم سیاستداں اسے آگے بڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سرد جنگ کے دوران بھی ہوا تھا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کٹرحریفوں کی حیثیت سے دیکھا کرتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار جابن ٹی جیکپ اسوسی ایٹ پروفیسر شیونادار یونیورسٹی نے کیا۔ مسٹرجیکپ یہ انتباہ دیتے ہیں کہ اگر نومبر کے انتخابات میں ٹرمپ دوسری میعاد کے لئے منتخب ہو جاتے ہیں تو امریکہ اور چین کے تعلقات بدسے بدتر ہو جائیں گے۔ دنیا نظریاتی طور پر کمیونسٹ اور کیاپٹلسٹ بلاگس میں تقسیم ہو جائے گی۔