ابھرے گی منزلیں مرے قدموں کی دھول سے

,

   

بھارت جوڑو بمقابلہ بھارت توڑو
نتیش کمار کی اپوزیشن جوڑو مہم
مذہبی امور کیلئے عدلیہ کی اجازت کیوں؟

رشیدالدین
’’توڑ جوڑ‘‘ بظاہر یہ دو آسان سے لفظ ہیں لیکن اپنے اندر ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان دونوں کی خصوصیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر ان دونوں کی طاقت کا جائزہ لیں تو ایک تعمیری اور دوسرا تخریبی صلاحیتوں کا حامل دکھائی دے گا۔ توڑنا آسان ہوتا ہے لیکن جوڑنا مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ ’’بستی بسنا کھیل نہیں ، بستے بستے بستی ہے‘‘ کے مصداق کسی کا دل یا عمارت یا پھر سماج ان کو توڑنے کیلئے زیادہ وقت نہیں لگتا لیکن جوڑنے کیلئے کافی محنت درکار ہوتی ہے اور بسا اوقات لوگ اس کام میں دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں لیکن کامیابی نہیں ملتی۔ انسان سائنس و ٹکنالوجی میں لاکھ ترقی کرلیں لیکن اگر جذبہ انسانیت و ہمدردی سے محروم ہو تو وہ جوڑنے کے بجائے توڑنے میں مصروف دکھائی دیتاہے۔ دل توڑنا دوستی اور رشتہ داری کو ختم کرتا ہے لیکن سماج کا ٹوٹنا ملک و قوم کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے اور یہ جرم ملک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ مجاہدین آزادی نے اپنی جانوں کی قربانی اس لئے نہیں دی کہ ان کے بعد مذہب کی بنیادوں پر پھوٹ پیدا کردی جائے۔ آزادی کے 75 برسوں میں تفرقہ پسند طاقتوں نے بارہا سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن عوام کے اتحاد نے انہیں ناکام بنادیا ۔ سماج کو توڑنے کے مقصد سے نفرت کی طاقتوں نے ہمت نہیں ہاری اور وقفہ وقفہ سے اپنے وجود کا احساس دلایا لیکن بھائی چارہ اور رواداری کے جذبہ سے سرشار عوام نے شکست دی۔ گزشتہ 8 برسوں میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے دلی سے گلی تک سماج کو توڑنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ اس مہم نے سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو وقتی طور پر سہی کمزور کردیا ہے۔ ان طاقتوں نے ملک کے سیکولر ڈھانچے کو ڈھانے کی کوشش کی تاکہ ملک میں ہندوتوا کا راج ہوجائے اور ہندوستان ہندو راشٹر بن جائے۔ 2014 ء سے اس مہم کا آغاز ہوا اور 2019 ء میں دوسری کامیابی نے حوصلے بلند کردیئے اور مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنایا گیا۔ عوام ان طاقتوں سے مقابلہ کیلئے تیار ہیں لیکن حکومت کی سرپرستی کے نتیجہ میں نفرت کی طاقتیں ابھی بھی مضبوط دکھائی دے رہی ہیں۔ ہر دور کی طرح اس بار بھی سماج میں توڑنے اور جوڑنے والی طاقتیں موجود ہیں لیکن وقتی طور پر منفی طاقتوں کا پلڑا بھاری ہے۔ سماج کو توڑنے اور ملک کو مذہب کی بنیاد پر فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی سازش کے درمیان جوڑنے کی دو علحدہ مہمات کا آغاز ہوا ہے ۔ نفرت اور فرقہ پرستی کے خلاف راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا تو دوسری طرف اپوزیشن کو جوڑنے نتیش کمار سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت جوڑو اور اپوزیشن کو جوڑو مہم کا واحد مقصد توڑنے والی طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ راہول گاندھی نے ایسے وقت بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا جب ملک سنگین حالات اور خود کانگریس پار ٹی بحران سے دوچار ہے۔ ملک اور کانگریس دونوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کانگریس متحد ہوجائے تو بی جے پی کا صفایا ہوسکتا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار من مانی پر اتر آئے ہیں کیونکہ مقابل میں کوئی نہیں ہے ۔ کانگریس پارٹی جس نے طویل عرصہ تک ملک پر حکمرانی کی ہے ، آج اندرونی طور پر ناراضگی اور بغاوت کا سامنا کر رہی ہے۔ کانگریس میں رہ کر زندگی بھر اقتدار اور عہدوں کا مزہ لوٹنے والے قائدین کو آج کانگریس بری دکھائی دے رہی ہے۔ G-23 ناراض گروپ کی سرگرمیاں برقرار تھیں کہ اچانک گروپ کے سربراہ غلام نبی آزاد نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ۔ جس وقت یہ گروپ بنایا گیا ، مقصد یہ تھا کہ پارٹی میں اصلاحات کی مہم چلائی جائے اور G-23 گروپ کبھی بھی پارٹی کے خلاف کام نہیں کرے گا لیکن غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں اپنے سیاسی مستقبل کی تلاش میں کانگریس کو خدا حافظ کہہ دیا۔ ان کے استعفیٰ سے گروپ کے دیگر ارکان کو دھکا لگا اور وہ دوبارہ پارٹی میں مکمل واپسی کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ غلام نبی آزاد نے کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور کشمیر میں عملاً انتخابی مہم شروع کرچکے ہیں۔ غلام نبی آزاد استعفیٰ کے ذریعہ بھلے ہی کانگریس سے آزاد تصور کر رہے ہیں لیکن ان کی شناخت تاحیات کانگریس سے رہے گی۔ ان حالات میں کانگریس کو جوڑے رکھنا سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کیلئے چیلنج بن چکا تھا۔ ایسے میں بھارت جوڑو یاترا سے یقینی طور پر کانگریس کو فائدہ ہوگا۔ راہول گاندھی نے یاترا کے ذریعہ کانگریس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے تاکہ 2024 ء عام انتخابات کا پوری طاقت سے سامنا کیا جائے۔ بی جکے پی اور سنگھ پریوار نت نئے مسائل اور تنازعات کے ذریعہ سماج کو توڑنے اور ملک کو بانٹنے کے در پہ ہیں لیکن نہرو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ نے جوڑنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ کسی منفی مہم کے مقابلہ مثبت مہم میں عوام کو جوڑنا انتہائی صبر آزما ہوتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ 8 برسوں میں مہنگائی ، بیروزگاری اور فرقہ پرستی سے عوام عاجز آچکے ہیں اور انہیں بی جے پی کے خلاف مضبوط متبادل کی تلاش ہے اور کانگریس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ویسے بھی اپوزیشن میں رہ کر عوام کے لئے یاترا اور پد یاترا کرنے والے قائدین کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ملک میں تخریبی کارروائیاں عروج پر ہیں۔ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ مخالفین کے گھروں اور دینی مدارس پر بلڈوزر چل رہے ہیں۔ نفرت ، فرقہ پرستی اور انانیت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راہول گاندھی کی یاترا محض ایک چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس چراغ کی روشنی ملک بھر میں ضرور پھیلے گی۔ 150 دن میں 3570 کیلو میٹر کا احاطہ کرتے ہوئے کانگریس کو بی جے پی سے مقابلہ کا اہل بنانے میں مدد ملے گی۔ 12 ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں سے گزر کر یاترا جموں و کشمیر میں ختم ہوگی۔ موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ کانگریس پار ٹی کو جوڑنا 2024 ء میں بی جے پی کے لئے مضبوط چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
ملک میں اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے چیف منسٹر بہار نتیش کمار سرگرم ہوچکے ہیں۔ اس مہم کو ممتا بنرجی اور کے چندر شیکھر راؤ کی تائید حاصل ہے۔ نتیش کمار سابق میں قومی سطح پر اتحاد میں نمایاں رہ چکے ہیں ، لہذا شمالی ہند کے قائدین کو اتحاد کیلئے آمادہ کرنے میں وہ بہتر رول ادا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کیلئے کئی علاقائی جماعتوں نے نتیش کمار کے کاندھوں پر اہم ذمہ داری رکھی ہے۔ یوں تو نتیش کمار توڑ جوڑ کے معاملہ میں ماہر مانے جاتے ہیں اور بہار میں کم ارکان کے باوجود وہ ہمیشہ چیف منسٹر کی کرسی پر فائز رہے۔ شرد پوار اور لالو پرساد جیسے قائدین کو بھی سیاسی طور پر شکست دے کر نتیش کمار نے بی جے پی کی مدد سے چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اب جبکہ انہوں نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ، لہذا توڑ جوڑ کے ماہر اس قائد کو اپوزیشن کو جوڑنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ قومی سطح پر اپوزیشن کا اتحاد کانگریس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا جس کا احساس ممتا بنرجی اور کے سی آر کو ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈگ وجئے سنگھ نے مستقبل میں کے سی آر کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا ہے۔ سابق میں اپوزیشن اتحاد میں بائیں بازو کی جماعتیں اہم رول نبھاتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ ملک بھر میں بائیں بازو جماعتیں کمزور پڑچکی ہیں۔ سیکولر اور جمہوری طاقتوں کی کمزوری کے نتیجہ میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی مراسم کی ادائیگی کیلئے بھی عدالتوں سے اجازت حاصل کرنی پڑ رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں شائد یہ پہلی بار ہے جب مسلمانوں نے حجاب پہننے کیلئے سپریم کورٹ سے اجازت طلب کی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے ، عمل کرنے اور حتیٰ کہ اس کی تبلیغ کی اجازت دی ہے تو پھر عدلیہ سے رجوع ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ کسی بھی حکومت کو یہ اختیار نہیں پہنچتا کہ وہ کسی مذہب کی رسم اور روایت پر پابندی عائد کرے۔ بنگلور میں ایک اسکول نے حجاب پر پابندی کا شوشہ چھوڑا اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کو ایک موقع ہاتھ آگیا تاکہ مسلمانوں کو ہراساں کریں۔ کسی بھی مذہبی رسم کے معاملہ میں دیگر مذاہب نے کبھی بھی عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا تو پھر مسلمانوں کے ساتھ یہ جانبداری کیوں ؟ کرسچین ، سکھ اور جین جیسے چھوٹے طبقات بھی اس قدر مضبوط ہیں کہ کسی حکومت نے ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جرات نہیں کی لیکن مسلمان آسان نشانہ اس لئے بھی ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار انہیں اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ دینی مدارس پر بلڈوزر چلانا حکومتوں کا کھیل بن چکا ہے۔ حالانکہ یہی وہ مدارس ہیں جن کے ملک پر کئی احسانات ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی شعائر اور دینی مدارس کے تحفظ کیلئے متحد ہونا پڑے گا ۔ جب مسلمان ایک آواز ہوجائیں تو پھر عدالتیں بھی اسلام کے خلاف فیصلوں سے گریز کریں گی۔ نامور شاعر ساقی امروہی نے کیا خوب کہا ہے ؎
میں آج تک سفر میں ہوں اس اعتماد سے
ابھرے گی منزلیں مرے قدموں کی دھول سے