اب اذان پر بھی پہرے لگانے لگے

,

   

عدم رواداری … حجاب ، حلال کے بعد اذان پر اعتراض
دعوت افطار پر فوج بھی نشانہ … حکمراں خاموش

رشیدالدین
’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘ ملک کے موجودہ حالات اور خاص طور پر جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازش نے نفرت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ مسئلہ چاہے کچھ ہو اس کے ذریعہ نشانہ مسلمانوں کو بنانے کی کوشش کا مقصد ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے حوصلے پست کرنا ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں نریندر مودی حکومت نے عوام کا کچھ بھلا نہیں کیا لیکن ہندوتوا کے زعفرانی بریگیڈ کی سرپرستی کی گئی۔ مخالف حکومت جہدکار اگر تنقید کریں تو جیل کو ان کے لئے مستقل ٹھکانے میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ مخالف CAA احتجاج کے کئی جہد کار جن میں طلبہ قائدین شامل ہیں، ایک سال سے زائد عرصہ سے ضمانت کے بغیر جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ مسلمان اور مخالف حکومت افراد کے ساتھ یہ سلوک ہے تو دوسری طرف دھرم سنسد میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے جیسے اشتعال انگیز بیانات پر کوئی کارروائی نہیں۔ دھرم سنسد کے نام سے نیا پلیٹ فارم حالیہ عرصہ میں متعارف ہوا جس میں تقاریب پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ زعفرانی بریگیڈ کے نمائندے سادھو سنتوں کے بھیس میں زہر پھیلا رہے ہیں۔ مختلف ناموں سے نئی نئی تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں جن کا کام نت نئے تنازعات کو ہوا دینا ہے۔ حجاب اور حلال کے بعد اذان کو بنیاد بناکر مساجد کو نشانہ بنانے کی تیاری ہے۔ مہاراشٹرا میں عوام کے مسترد کردہ راج ٹھاکرے کے ذریعہ اذان اور لاؤڈ اسپیکر کے مسئلہ کو ہوا دی گئی اور بجرنگ دل ، سری رام سینا جیسی تنظیموں نے کرناٹک اور ملک کے دیگر علاقوں میں اس مہم کو شدت کے ساتھ چلایا۔ سنگھ پریوار کی پروپگنڈہ مشنری نے لاؤڈ اسپیکر اور مساجد کے روبرو ہنومان چالیسہ پڑھنے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی گوشہ گمنامی سے نکال کر راج ٹھاکرے کو سنگھ پریوار کا لاؤڈ اسپیکر بنادیا گیا۔ مہاراشٹرا میں اودھو ٹھاکرے کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش اس لئے کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ اودھو ٹھاکرے شیوسینا کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے کا خون اور حقیقی جانشین ہیں۔ سیاسی پینترے بازی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ بی جے پی اذان کے مسئلہ پر راج ٹھاکرے کی تائید کر رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مہاراشٹرا میں بی جے پی حکومت تھی تو اس وقت لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ حالانکہ ان کے دور میں بھی اذان لاؤڈ اسپیکر سے دی جاتی رہی۔ رمضان المبارک کے دوران اذان پر اعتراض کرتے ہوئے لاؤڈ اسپیکرس ہٹانے کی مہم محض اتفاق یا پھر راج ٹھاکرے تک محدود نہیں ہے۔ راج ٹھاکرے کی مہم تو مہاراشٹرا تک محدود رہی لیکن بی جے پی برسر اقتدار ریاستوں میں مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹادیئے گئے۔ اترپردیش میں 6000 عبادتگاہوں سے لاؤڈ اسپیکرس کو نکال دیا گیا جبکہ 30000 عبادتگاہوں کے لاؤڈ اسپیکرس کی آواز کم کردی گئی۔ راج ٹھاکرے کو مہرہ بناکر مساجد کو نشانہ بنانے کی سازش خود بی جے پی پر الٹ سکتی ہے۔ مشہور فلمی ڈائیلاگ ’’شیشوں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے‘‘ کے مصداق لاؤڈ اسپیکرس صرف مساجد پر نہیں ہیں ۔ دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں سے لاؤڈ اسپیکرس کو ہٹانا پڑے گا۔ صوتی آلودگی کیا صرف مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس سے ہوتی ہے ؟ جس اذان کی آواز پر اعتراض کیا جارہا ہے اور یہ آواز فرقہ پرستوں کی سماعت پر گراں گزر رہی ہے، دراصل اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔کئی ہندو خاندانوں سے ہم واقف ہیں جو اذان کی آواز سنتے ہی بطور احترام اپنے کام کاج روک دیتے ہیں۔ خوش الحان مؤذن کی اذان نے کئی غیر مسلموں کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ آبدیدہ ہوگئے۔ متحدہ آندھراپردیش کے گورنرس شنکر دیال شرما اور کرشنا کانت کے وہ جملے ہمیں یاد ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ راج بھون میں اذان کی آواز سے ان کی صبح ہوتی ہے اور اذان کے الفاظ ان کے دل میں سکون پیدا کرتے ہیں۔ یہ تو رہی مذہبی رواداری کی مثال لیکن حالیہ عرصہ میں ایک گورنر ایسے بھی گزرے جنہوں نے پولیس کے ذریعہ راج بھون کے اطراف کی مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس کی آواز کو کم کرایا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اذان پر اعتراض کرنے والے پہلے بھی موجود تھے لیکن باقاعدہ مہم نہیں چلاسکے۔ کہتے ہیں کہ اذان کی آواز سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ اب جن کو اذان کی آواز پر اعتراض ہے وہ کیا ہیں عوام خود بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اذان اور لاؤڈ اسپیکرس کے خلاف مہم کیلئے 2005 ء میں دیئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سہارا لیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے صوتی آلودگی سے بچاؤ کیلئے رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک میوزک سسٹم اور لاؤڈ اسپیکرس کے استعمال پر پابند عائد کی تھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف مساجد کے لئے مخصوص نہیں تھا لیکن فیصلہ کے 17 سال بعد اسے مساجد کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اذان 3 سے 5 منٹ میں مکمل ہوجاتی ہے اور یہ کسی بھی طرح صوتی آلودگی کا سبب نہیں بن سکتی ۔ مختلف تہواروں اور جلوسوں کے موقع پر دن رات ڈی جے اور میوزک سسٹم کے استعمال سے شائد آلودگی کم ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کا اس قدر احترام ہے کہ 17 سال پرانے فیصلہ پر عمل کیا جارہا ہے۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس سے 1992 ء میں بی جے پی کی کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے تحفظ کا تحریری طور پر وعدہ کیا تھا لیکن وعدہ کا کیا ہوا دنیا جانتی ہے۔ سپریم کورٹ کی توہین کرنے والے آج اس کے فیصلہ کے احترام کی بات کر رہے ہیں۔ وہ اس لئے کہ مساجد کو نشانہ بنانے کیلئے یہ فیصلہ ایک ہتھیار کی طرح مل چکا ہے۔ فیصلہ کے جانبدارانہ استعمال پر خود سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی چاہئے ۔
سپریم کورٹ نے صرف صوتی آلودگی کم کرنے کیلئے فیصلہ نہیں دیا اور بھی معاملات میں اس کے فیصلے موجود ہیں لیکن عمل آوری ندارد ہے۔ سپریم کورٹ نے کسی بھی انہدامی کارروائی سے قبل انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن مدھیہ پردیش ، دہلی ، اترپردیش اور گجرات میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلادیا گیا ۔ اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیال نہیں آیا۔ سپریم کورٹ نے ٹاملناڈو میں جلی کٹو پروگرام پر پابندی عائد کی تھی ، اسی طرح سبری مالا میں خواتین کے داخلہ کی اجازت دی گئی لیکن دونوں فیصلوںکو آستھا کے نام پر عمل آوری سے روک دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق کیا صرف مسلمانوں پر ہوگا؟ نفرت اور عدم رواداری میں جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری اداروں میں دعوت افطار کا اہتمام بھی زعفرانی بریگیڈ کو پسند نہیں ہے۔ دعوت افطار کے اہتمام کیلئے فوج کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے فوجیوں پر تنقید کو مرکزی حکومت نے برداشت کرلیا ۔ کشمیر کے ڈوڈا ضلع میں فوج نے مقامی باشندوں کیلئے دعوت افطار کا اہتمام کیا تھا اور اس کی تصاویر ٹوئیٹر پر اپ لوڈ کی تاکہ فوج کے جذبہ رواداری سے عوام واقف ہوسکیں۔ ٹوئیٹر پر تصویریں اپ لوڈ ہوتے ہی فرقہ پرست عناصر نے مخالفت میں اس قدر ریمارکس کئے کہ فوج کو ٹوئیٹر پر تصاویر ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی دعوت افطار کے اہتمام کے لئے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان میں صدر جمہوریہ اور وزیراعظم کی جانب سے افطار پارٹی اور عید ملن کی روایت رہی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے اس روایت کو برقرار رکھا تھا لیکن نریندر مودی کے برسر اقتدار آتے ہی اس روایت کا خاتمہ ہوگیا۔ واقعی ’’میرا دیش بدل رہا ہے‘‘ فرقہ پرست عناصر کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ وہ فوج پر تنقید سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ سرحدوں پر دشمن ممالک پاکستان اور چین کو عید ، تہوار اور قومی دن کے موقع پر مٹھائی حوالے کی جاتی ہے۔ شائد سنگھ پریوار اس روایت کو بھی ختم کرنے کی مہم چلائے گا۔ عدم رواداری اور نفرت کی مہم پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ کم از کم فوج کو نشانہ بنانے پر وزیراعظم اور وزیر دفاع کو خاموشی توڑنی چاہئے تھی۔ ہر چھوٹے موٹے مسئلہ پر من کی بات سنانے والے نریندر مودی نفرت کے سوداگروں کے خلاف لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ کیا مسلمان ملک میں مساوی حصہ دار نہیں ہیں، انہیں کب تک کرایہ دار سمجھا جائے گا۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ملک آزاد ہوا اور آج بھی ہر شعبہ میں مسلمان ہندوستان کا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔ مسلمان ملک میں اپنی مرضی سے ہیں نہ کہ کسی کی مہربانی سے۔ راز الہ آبادی کا شعر معمولی ترمیم کے ساتھ قارئین کے لئے پیش ہے جو حالات پر صادق آتا ہے ؎
پہلے پر کاٹ کر ہم کو بے پر کیا
اب اذان پر بھی پہرے لگانے لگے