اب تلنگانہ بی جے پی کے نشانہ پر

   

بڑا دلچسپ ہے انجام میرا
غرورِ دوست کا آغاز ہوں میں
اب تلنگانہ بی جے پی کے نشانہ پر
گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں تلنگانہ میں سے 4 نشستیں حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کے عزائم اور حوصلے بلند ہوگئے ہیں ۔ ریاست میں بی جے پی اپنے سیاسی استحکام کیلئے ہرممکن کوشش کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ اس کے لئے بی جے پی کی جانب سے دوسری ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں بھی فرقہ پرستی کی سیاست اور اشتعال انگیزی کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ پارٹی کے بڑے اور سینئر قائدین بھی اشتعال انگیزی میں ملوث رہے ہیں ۔ کبھی کسی مسئلہ پر اشتعال انگیزی کی جاتی ہے تو کبھی کسی اور مسئلہ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ خاص طور پر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے بھومی پوجن کے مسئلہ پر بی جے پی نے سیاست شروع کردی ہے ۔ شہر اور ریاست کے دیگر مقامات پر بھی مندر کی بھومی پوجن کا جشن مناتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے انتخابات کا وقت بھی قریب آرہا ہے ۔ بی جے پی عملی طور پر اس کی تیاریوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ چند دن قبل تنظیمی ڈھانچہ میں تبدیلیاں کرتے ہوئے قدیم قائدین کو نظرانداز کردیا گیا اور نوجوان قائدین کو پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ میں اہم ذمہ داری سونپی گئی ۔ یہ بی جے پی کا اپنا داخلی مسئلہ ہے اور ہر جماعت کی طرح وہ بھی تنظیمی ردوبدل اور سیاسی حکمت عملی بنانے کا مکمل اختیار رکھتی ہے ۔ تاہم ریاست اور خاص طور پر شہر حیدرآباد کی فضاء کو مکدر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت کیوں نہ ہو ۔ شہر اور ریاست کا امن برقرار رکھنا جہاں حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہے وہیں برقراری امن میں اپنا رول ادا کرنا ہر جماعت کا بھی ذمہ ہے ۔ بی جے پی کا اس فریضہ کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف انتخابی کامیابی کیلئے فرقہ پرستی کی سیاست کا سہارا لیتی رہی ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ اترپردیش سے لیکر بہار ، مدھیہ پردیش سے لیکر راجستھان ، مہاراشٹرا سے لیکر چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ سے لیکر مغربی بنگال ، کرناٹک سے لیکر کیرالا چاہے جو کوئی ریاست رہی ہے بی جے پی نے ہمیشہ فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلا ہے ۔ عوام کو اشتعال دلاکر جذباتی سیاست کا سہارا لیا ہے ۔ بی جے پی کو یہ یقین ہے کہ ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح وہ تلنگانہ میں بھی اسی روش کو اختیار کرتے ہوئے ریاست کے سیاسی میدان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہونے کا نشانہ پورا کرسکتی ہے ۔
ملک کی کسی بھی جماعت یا تنظیم کو انتخابی سیاست میں زورآزمائی کا مکمل حق حاصل ہے ۔ ہمارے دستور نے یہ حق دیا ہے ۔ تاہم اسی دستور نے ہر فرد ، تنظیم اور سیاسی جماعت کو ملک کے قوانین کا پابند بھی بنایا ہے ۔ ہر جماعت کو چاہے وہ اقتدار میں رہے یا اپوزیشن میں ان قوانین کی پابندی کرنا لازمی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ ملک کے قوانین کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کربیٹھتی ہیں ۔ تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات جب ہوئے بی جے پی کو محض ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ تاہم لوک سبھا انتخابات میں جب ریاست سے اس کے 4 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے تو اس کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والے قائدین کی جانب سے ہی بہار اور گجرات جیسی ریاستوں کے قائدین کی طرح اشتعال انگیز اور فرقہ پرستانہ بیانات دیئے جانے لگے ۔ بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے موجودہ صدر بنڈی سنجے خود بھی مسلسل اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ۔ اسی طرح نظام آباد کے رکن پارلیمنٹ ڈی اروند بھی اشتعال انگیز بیانات کیلئے مشہور ہیں ۔ ان قائدین کا یہ یقین ہے کہ فرقہ پرستی کی سیاست اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ وہ تلنگانہ میں بی جے پی کو سیاسی استحکام بخش سکتے ہیں ۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے ۔ اس بات کی کوئی فکر کسی کو لاحق نہیں ہے کہ اشتعال انگیزیوں اور فرقہ پرستی سے ریاست کا امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی جو ریاست کی ترقی کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا ۔
حالانکہ تلنگانہ میں اب سوائے جی ایچ ایم سی کے کہیں اور انتخابات ہونے والے نہیں ہے لیکن بی جے پی ایک طویل حکومت عملی کے ساتھ اپنے سیاسی استحکام کیلئے سرگرم ہوگئی ہے ۔ تاہم انتخابی کامیابی کیلئے اشتعال انگیزیوں کا سہارا لینے کے بجائے پارٹی کو ایک مثبت حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ سیاسی کامیابی کیلئے ریاست اور شہر کی پرامن فضاء کو متاثر کرنے سے گریز کیا جانا چاہئیے ۔ ریاست اور ریاست کے عوام کے مفادات ان کی خوشحالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔