اب کہاں ڈھونڈنے جاؤگے ہمارے قاتل

,

   

نریندر مودی … گجرات فسادات پر ڈاکیومنٹری فلم
مساجد اور مدارس پر بلڈوزر چلنے لگا

رشیدالدین
آزاد ہندوستان کی 75 سالہ تاریخ میں یوں تو کئی سانحے دیکھے گئے لیکن دو سانحے ایسے ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ ایک بابری مسجد کی شہادت تو دوسرا گجرات فسادات ۔ دونوں کے لئے مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی اور اس کے ہمنوا سنگھ پریوار ذمہ دار ہیں۔ گجرات کے مظلوموں کی آہیں ظالموں کا تعاقب کر رہی ہیں۔ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقاتی رپورٹ پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری فلم نے دنیا بھر میں ہلچل مچادی ہے ۔ ہندوستان میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ڈاکیومنٹری فلم ایک آئینہ کی طرح ہے جس میں وہ اپنے کارناموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں 2002 ء گجرات مسلم کش فسادات کے لئے نریندر مودی کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں فسادات میں پیش آئے واقعات کا تفصیلی احاطہ کرتے ہوئے گجرات کے وزراء کے بدبختانہ رول کو بے نقاب کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جب تک مودی برسر اقتدار رہیں گے مسلمانوں کیلئے امن و سلامتی ممکن نہیں ہے۔ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقاتی رپورٹ دنیا بھر کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو نریندر مودی کے کارسیاہ کے جاننے کے باوجود آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ برطانوی حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر عالمی عدالت میں مودی کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔ گجرات فسادات کے بارے میں بی بی سی نے جو ڈاکیومنٹری فلم جاری کی ، اس نے دراصل ان باتوں کی تصدیق کی ہے ، جو گزشتہ کئی برسوں سے جہد کار اور انصاف پسند افراد کہہ رہے تھے۔ انصاف کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن شواہد کی کمی کی بنیاد پر عدالتوں نے نریندر مودی کو بری کردی ۔ عدالتیں بھلے ہی مودی کو کلین چٹ دیں لیکن حقیقت اس کے برعکس برخلاف ہے۔ نریندر مودی دنیا بھر کا دورہ کرتے ہوئے اپنی شبیہہ سدھارنے کی لاکھ کوشش کریں لیکن ان کے دامن پر لگے خون کے دھبے مٹنے والے نہیں ہیں۔ دنیا کی کسی بھی فیکٹری نے ایسا صابن یا ڈیٹرجینٹ تیار نہیں کیا جو مودی کے دامن پر لگے داغوں کو دھوسکے۔ 2002 گجرات فسادات دراصل نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر مظالم کا آغاز تھا۔ گجرات کے مظلوموں کی لاشوں پر چلتے ہوئے مودی وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ گئے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتیں مودی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ عدالتیں انصاف کی آخری امید تھی لیکن احسان جعفری کی بیوہ اور بلقیس بانو کو انصاف نہیں ملا۔ عدالت کی جانب سے نریندر مودی کو کلین چٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواست بھی قبول نہیں کی گئی ۔ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری مسلمہ ہے لیکن حالیہ عرصہ میں عدلیہ کے رویہ پر سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند بی بی سی کی ڈاکیومنٹری سے انکار نہیں کرسکتا۔ عوام آج تک اس بات کو بھولے نہیں ہیں کہ امریکہ نے مودی کے داخلہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ کئی برس تک مودی کو ویزا جاری نہیں کیا گیا۔ ڈاکیومنٹری فلم کے بعد پھر ایک مرتبہ گجرات کے مظلومین کے زخم تازہ ہوچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکیومنٹری فلم گجرات کے مظلوموں کو انصاف دلانے میں مددگار ثابت ہوگی ؟ برطانیہ کی رپورٹ نے اگرچہ نریندر مودی کے سیاہ کارناموں کو آشکار کیا ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اس رپورٹ کو ہندو ووٹ بینک متحد کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ مودی کو فسادات کیلئے ذمہ دار قرار دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل مسئلہ مودی کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور مظلوموں کو انصاف دلانا ہے۔ شائد یہ کام مودی کے برسر اقتدار رہنے تک نہیں ہوپائے گا۔ ویسے بھی ہندوستان میں قاتلوں اور خاطیوں کو سزا ملنے کی مثالیں بہت کم ہیں۔ بابری مسجد کے قاتلوں کو عدالتوں نے بری کردیا جبکہ ان کے خلاف ثبوت موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ جب قاتلوں اور خاطیوں کا تعلق بی جے پی اور سنگھ پریوار سے ہو تو عدلیہ کیلئے بھی انہیں سزا دینا آسان نہیں ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ سپریم کورٹ کے معاملات میں مرکز راست مداخلت کر رہا ہے ۔ کانگریس پارٹی سنہری گردوارہ میں آپریشن بلیو اسٹار اور دہلی کے مخالف سکھ فسادات کیلئے آج تک معافی مانگ رہی ہے لیکن کیا نریندر مودی گجرات فسادات کیلئے قوم سے معذرت خواہی کریں گے ؟ اس کا جواب نہیں کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ گجرات فسادات کیلئے معافی تو دور کی بات ہے ، گزشتہ 8 برسوں میں مودی زیر قیادت حکومت نے ملک بھر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نئے پہاڑ توڑے ہیں۔ حالات بھلے ہی کچھ ہوں مسلمانوں کو حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ پست ہمت ہوجاتے ہیں تو مزاحمت کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے اور فرقہ پرست طاقتوں کو مظالم کا نیا موقع مل جائے گا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ملت مظلوم کو حوصلہ دینے والی بے باک قیادت موجود نہیں ہے۔
جب کبھی کسی ملک میں ہندوستانیوں کی مذہبی عبادتگاہوں پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی حکومت مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی نصیحت کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں آسٹریلیا میں دو ہندو عبادتگاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ مذہب کے نام پر منافرت کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جس ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں، وہاں کی حکومتیں اپنے قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں چاہے گا کہ وہاں بدامنی کا ماحول ہو۔ آسٹریلیا کے حالیہ واقعات پر وزارت خارجہ نے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری کو یاد دلایا ۔ وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ کی جانب سے ردعمل ایک سفارتی معاملہ ہے جو محض رسمی کارروائی کی طرح ہے۔ ہندوستان کی جانب سے جب کسی ملک کو مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادتگاہوں کے تحفظ کا درس دیا جاتا ہے تو ہمیں ہنسی کے ساتھ حیرت بھی ہوتی ہے۔ مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادتگاہوں کے معاملہ میں جس کا ریکارڈ ٹھیک نہ ہو ، وہ دوسروں کو کیا سکھاسکتا ہے ۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی سیکولر اور رواداری کی روایات کو دفن کردیا گیا اور مذہبی منافرت اور جارحانہ فرقہ پرستی عام ہوگئی ۔ دوسرے ممالک کو رواداری کا درس دینے سے پہلے ہندوستانی حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ۔ گزشتہ 8 برسوں میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے ۔ ملک میں نہ ہی مسلمان اور نہ ان کی عبادتگاہیں محفوظ ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت دراصل ہندوتوا کا پہلا تجربہ تھا اور سپریم کورٹ سے مسجد کی اراضی مندر کو حوالے کرنے کے بعد حوصلے اور بلند ہوگئے ۔ جس طرح ہندوستان بیرونی ممالک میں ہندو مذہبی عبادتگاہوں پر حملے کی مذمت کرسکتا ہے تو پھر ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کی صورت میں عرب اور اسلامی ممالک کے ردعمل کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہئے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں جب کوئی اسلامی ملک آواز اٹھائے تو داخلی معاملہ میں مداخلت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے ۔ جب مسلم ممالک کیلئے ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات داخلی معاملہ ہیں تو پھر آسٹریلیا کے داخلی معاملہ میں مداخلت کا حق کس نے دیا۔ جب کسی ایک کمیونٹی پر ظلم ہو تو فطری تقاضہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں بسنے والے اس کمیونٹی کے افراد کو تکلیف ہوتی ہے۔ ہندوستانی حکومت کا دوہرا معیار ہے ۔ جب کوئی بیرونی ملک مداخلت نہیں کرسکتا تو پھر ہندوستان ہر کسی کے معاملہ میں تبصرہ کے لئے آزاد کس طرح ہے ۔ جاریہ سال ملک کی 7 ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہیں، لہذا بی جے پی نے نفرت کے ایجنڈہ پر عمل آوری میں شدت پیدا کردی ہے۔ بی جے پی کے پاس عوامی خدمات کے کارنامے نہیں ہیں جس کی بنیاد پر دوبارہ اقتدار حاصل کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ نے جنوری 2024 ء میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ ایک سال کے وقفہ میں 7 اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ۔ بی جے پی کو اندازہ ہوجائے گا کہ عام انتخابات میں نتیجہ کیا آسکتا ہے ۔ انتخابی تیاریوں کے تحت کئی ریاستوں میں بلڈوزر کو متحرک کردیا گیا ۔ آسام میں دینی مدارس اور مسلم آبادیوں پر بلڈوزر کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ الہ آباد میں تاریخی شاہی مسجد کو شہید کردیا گیا۔ گجرات میں 6 دینی مدارس اور مسلمانوں کی 36 ملگیات کو زمین بوس کردیا گیا ۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی سازش پر سپریم کورٹ نے روک لگادی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عبادتگاہوں اور دینی مدارس پر بلڈوزر چلانے سے قبل مسلمانوں میں خوف کا ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ مزاحمت کا تصور باقی نہیں رہا۔ اترپردیش اور گجرات ہندوتوا کی بڑی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ نفرت کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ ہندو جاتراؤں اور میلے میں مسلم تاجروںکا بائیکاٹ کیا جارہا ہے ۔ دہلی کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کو گھر فروخت نہ کرنے کا پوسٹر لگایا گیا۔ نفرت کی یہ مہم آخر کہاں جاکر رکے گی؟ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤگے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پہ رکھ دو