اترپردیش :ایک اور انکاؤنٹر

   

راستے اپنے بدلنے سے نہیں کچھ حاصل
اے مسافر تجھے رہبر کو بدلنا ہوگا
اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت انکاؤنٹر اور بلڈوزر کی حکمرانی میں مصروف ہے ۔ آج یو پی کے جھانسی میںگینگسٹر و سیاستدان عتیق احمد کے بیٹے اسد احمد اور ایک ساتھی کو ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کردینے کا یو پی پولیس نے دعوی کیا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسد احمد اور اس کا ساتھی فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور پھر انہوں نے پولیس پر فائرنگ بھی کردی ۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں اسد اور اس کا ساتھی مارے گئے ہیں۔ عتیق احمد اور ان کے افراد خاندان کو جس طرح سے اترپردیش میںنشانہ بنایا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس انکاؤنٹر پر شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ خود قائدا پوزیشن اور سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو نے تو اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے ہوئے اس کی جانچ کروانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ عتیق احمد خود بھی اپنے انکاؤنٹر کے اندیشوں کا شکار ہیں۔ انہوں نے گجرات سے اترپردیش منتقلی سے قبل ہی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ ان کا جیل سے منتقلی کے دوران انکاؤنٹر کیا جاسکتا ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے بھی اس طرح کے اندیشے ظاہر کئے گئے تھے ۔ تاہم یو پی پولیس نے عتیق احمد کی بجائے اب ان کے فرزند کو انکاؤنٹر کا شکار بنادیا ہے ۔ جس طرح سے اترپردیش میں انکاؤنٹرس کئے جا رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ ضرو ری ہوجاتا ہے کہ ریاست میں آدتیہ ناتھ کی حکمرانی کے دوران جتنے بھی انکاؤنٹرس پیش آئے ہیں ان سب کی اعلی سطح پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔ بہتر یہ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کروائی جائیں تاکہ جو سوالات ان انکاؤنٹرس کی وجہ سے پیدا ہونے لگے ہیں ان کو حل کیا جاسکے ۔ اگر انکاؤنٹرس فرضی ہیں تو ان میں ملوث پولیس عہدیداروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتہ چلانے کی کوشش کی جائے کہ یہ سب انکاؤنٹرس آخر کس کے اشاروں پر کئے گئے ہیں۔ حقائق کو منظر عام پر لانا ہر جمہوریت پسند حکومت کی ذمہ داری ہے اور عوام کے یا کسی بھی گوشے کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہورہے ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے اور جواب دیا جاسکے ۔
یہ حقیقت ہے کہ عتیق احمد کا پس منظر مجرمانہ رہا ہے ۔ ان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں ۔ ان میں قتل و غارت گری جیسے سنگین مقدمات بھی شامل ہیں۔ تاہم ہندوستان ایک جمہوری اور قانون کی بالادستی والا ملک ہے ۔ اس ملک میں ملزمین اور مجرمین سے نمٹنے کیلئے عدالتیں قائم ہیں۔ عدالتی ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہیں کہ کون بے گناہ ہے اور کون قصور وار ہے ۔ پولیس اور نفاذ قانون کی دوسری جو ایجنسیاں ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ جرائم کی تحقیقات کریں۔ حقائق کا پتہ چلائیں۔ عدالتوں میں فرد جرم پیش کریں اور ملزمین کے گناہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر کوئی واقعی مجرم بھی ہے تب بھی پولیس کو یہ اختیار قطعی حاصل نہیں ہے کہ وہ ملزم یا مجرم کو اپنے طور پر سزا دے ۔ پولیس اگر ایسا کرتی ہے تو وہ خود بھی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب بنتی ہے ۔ پولیس کسی کو سزا دینے کیلئے نہیں بلکہ حقائق کا پتہ چلانے کیلئے ہے ۔ پولیس بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی بلکہ اسے قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہ اختیار پولیس کا ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو بھی مجرم قرار دے یا قصور وار قرار دے کر اسے سزا دی جائے ۔ ملک میں عدالتیں ہیں۔ عدالتوں پر ہر ہندوستانی کا ایقان ہے ۔ عدالتیں جو بھی فیصلہ کرتی ہیں وہ سب کیلئے قابل قبول ہوتا ہے ۔ سبھی کو عدالتوں کے فیصلے تسلیم کرنے ہوتے ہیں اور اگر پولیس عدالتوں سے رجوع ہونے کی بجائے اپنے طور پر سزائیں دینے پر آجائے تو یہ قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔
جس وقت آدتیہ ناتھ اترپردیش کے چیف منسٹر بنائے گئے تھے اس وقت سے ہی مجرمین کا خاتمہ کرنے کے بہانے سے انکاؤنٹرس کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ ملزمین کو عدالتوں میں پیش کرنے کی بجائے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا تھا ۔ یہ سب کچھ غیر قانونی ہے ۔ اس کے علاوہ سیاسی مخالفین اور اقلیتوں کے خلاف جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے بلڈوزر کارروائیاں بھی کی گئیں۔ یہ بھی غیرقانونی عمل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ان ساری کارروائیوں کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے ۔ حقائق کو منظر عام پر لانا ضروری ہے اور عوام میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے تئیں اعتماد بحال کیا جانا چاہئے ۔