اختلا ف رائے جمہوریت کا’محفوظ گوشہ‘ ہے

,

   

اختلا ف رائے کو ”جمہوریت کا محفوظ گوشہ“ قراردیتے ہوئے جسٹس چندرا چوڑ نے کہاکہ اختلاف رائے کو خاموش کرنا اور لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنا ائینی اصولوں کی تمانعت دینے والی ذاتی آزادی کی خلاف ورزی سے بھی اگے ہے

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑنے کہاکہ اختلا ف رائے رکھنے والوں کو ”مخالف ملک“ یا ”مخالف ڈیموکریسی“ کا تمغہ دینا جمہوریت کے قلب پر حملہ ہوگا۔انہوں نے اختلا ف رائے کو ”جمہوریت کا محفوظ گوشہ“ قراردیتے ہوئے جسٹس چندرا چوڑ نے کہاکہ اختلاف رائے کو خاموش کرنا اور لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنا ائینی اصولوں کی تمانعت دینے والی ذاتی آزادی کی خلاف ورزی سے بھی اگے ہے۔

احمد آباد میں گجرات ہائی کورٹ کے 15ویں پی ڈی میموریل لکچرکے دوران جسٹس چندرا چوڑ نے کہاکہ ”ایک بہترین حکومت جو بات چیت پر روک نہیں لگاتی ہے بلکہ اس کا خیر مقدم کرتی ہے‘ایک سنجیدہ حکومت قانون کی بالادستی کو یقینی بناتی ہے تاکہ حکومت کا سازوسامان پرامن احتجاج کو دبانے کے لئے بلکہ بات چیت کے انعقاد کے لئے جگہ فراہم کرنے کاکام کرتی ہے“۔

انہوں نے آگے کہاکہ”قانون کے دائرے کار میں‘ آزاد جمہوریت اپنے شہریوں کے اظہار حق کو یقینی بنانے کا ہر حال میں کام کرتی ہے‘ جس میں حق احتجاج اور مروجہ قوانین کے متعلق اختلاف رائے رکھ سکیں۔

اس طرح کا اختلاف رائے رکھنے والوں کو بطور”مخالف ملک“ یا ”مخالف جمہوریت“ قراردینا ائینی اصولوں کے تحت دی جانے والی ضمانت کے قلب پر حملہ ہے“۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑاس بنچ کا حصہ ہے جس نے اترپردیش حکومت سے ریاست میں مخالف سی اے اے مظاہرہ کرنے والے احتجاجیوں کو مبینہ طور پر ان کی جائیدادوں کو غرق کرکے پیسے وصول کرنے کی نوٹس کو برخواست کرنے کے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر حکومت اترپردیش سے جواب مانگا ہے