اردو کے ادیب ، قومی یکجہتی کے علمبردار پیکر استقامت، بزرگانہ صفات کے حامل حضرت محمد رضی الدین معظم کا سانحۂ ارتحال

   

شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں بچپن کے ماحول کو بنیادی اہمیت اور نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ بچپن میں پڑھکر سمجھنے اور اخذ کرنے کی لیاقت نسبتاً کم ہوتی ہے البتہ دیکھ کر یا سنکر جذب کرنے کی صلاحیت بالعموم زیادہ ہوتی ہے اس لئے گھر کا ، خاندان کا ، محلہ کا ، درسگاہ کا ماحول بچوں کی ذہنی نشونما اور فکری و اخلاقی تربیت میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔
اس خاکسار کا بچپن حیدرآباد کے ایک قدیم محلہ شاہ گنج میں گزرا ہے ، غریب خانہ کے آخری زینے اور مسجد شاہ عالم محبوب عالم کی دہلیز کے درمیان بمشکل تین قدم کا فاصلہ ہے ، خانۂ خدا کے پڑوس ہونے کی برکتیں میسر آئیں اور مسجد میں آنے والے بزرگ مصلیوں کے نورانی چہرے ، پاکیزہ کردار ، باوقار طور و طریق، قلب و ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔
انہی پابند مصلیوں میں ایک عظیم ہستی حضرت رضی الدین معظم (ولادت:۱۰؍ ستمبر ۱۹۳۹؁ء ، وفات : ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۰؁ء ) کی ہے ۔ وہ ہماری مسجد کے سب سے بزرگ مصلی تھے ، سارا محلہ آپ کا قدرداں تھا ۔ آپ ایک علمی و نورانی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین نوراللہ مرقدہ ہیں جو حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ قدس سرہ العزیز کے شاگرد رشید ، مرید خاص اور خلیفہ مجاز ہیں جنکو حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم کے خصوصی درس میں شرکت ، استفادہ اور توجہہ خاص کا شرف حاصل رہا ۔ آپ جامعہ نظامیہ کے شیخ الجامعہ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے نیز آپ صدارت العالیہ کے مفتی بھی تھے ۔ آپ کی ذات گرامی علم و معرفت اور شریعت و طریقت کا سنگم تھی اور یہ برکتیں بفضل الٰہی آپ کے خاندان میں منتقل ہوئیں۔ چنانچہ حضرت محمد رضی الدین معظمؒ بمصداق ’’الولدسرلأبیہ‘‘ بزرگانہ صفات ، قلب سلیم ، ذوقِ لطیف ، تحقیقی جستجو ، قناعت ، پاکیزگی ، وضعداری ، وقار و اطمینان جیسے بلند اقدار و صفات وراثتاً محفوظ رہے ۔ گویا آپ کی شخصیت دینداری کی بہترین مثال اور اتباع نبوی کی عملی تصویر تھی ۔
حضرت محمد رضی الدین معظمؒ کے انتقال کی خبر نے بہت متاثر کیا اس لئے کہ بچپن سے آپ کی شفقتیں اس خاکسار پر رہیں۔ جب میں تیرہ برس کا بھی نہ تھا مجھے تراویح کے لئے آگے بڑھایا گیا آپ روز اول سے تقریباً بیس سال میری ہمت افزائی کرتے رہے اور ہر سال ختم قرآن کے موقعہ پر خصوصی گلپوشی کا اہتمام کرتے اور جب علیل ہوگئے تراویح میں شرکت دشوار ہوگئی تو ختم قرآن کے موقعہ ضرور زحمت گواراہ فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے ۔
شخصی وابستگی کے علاوہ ایسی باعمل شخصیت کا رخصت ہوجانا ملت کے لئے بطور خاص نئی نسل کے لئے عملی نمونہ سے محرومی ہے اور اس کی تلافی اس مادی دور میں بہت مشکل ہے ۔ عوام تو عوام خواص میں بالعموم للہیت ، استقامت، سکون قلب اور مطمئن زندگی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان گنہگار آنکھوں نے سالہا سال آپ کو عصر سے عشاء تک مسجد میں قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول و منہمک پایا ۔ عصر اور عشاء کے درمیان کا وقفہ کچھ کم نہیں ۔ اس عرصہ میں کسی نے آپ کو پاؤں دراز کرتے ہوئے نہیں دیکھا حتی کہ اس ضعیفی میں آپ کو ٹیک لگاکر تلاوت کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ علاوہ ازیں مسجد کے باہر بچوں کے کھیل کود ، شور و شرابے سے آپ کے انہماک و یکسوئی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوشیل میڈیا کے اس دور میں استقامت ، اطمینان ، انہماک اور یکسوئی کی نعمت سے نئی نسل تو نئی نسل پارسائی کے دعویدار بھی محروم ہیں۔ استقامت کا اثر یہ کہ اُٹھنا ، بیٹھنا دشوار ہونے کے باوجود تہجد کی نماز فوت نہیں ہوئی ۔
مخفی مبادکہ جو کوئی آپ سے ظاہری طورپر سرسری ملاقات کرتا تو وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ آپ ایک دیندار اور خاموش طبع ہیں، دنیا سے غافل اور اپنی محدود زندگی میں مصروف ہیں لیکن جب وہ آپ کے علمی، ادبی ، تحقیقی اور اصلاحی مضامین و تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سادہ طبیعت کے پس پردہ ایک وسیع النظر ، نبض شناس ، ادبی ذوق سے آشنا ماہر تعلیم، ماہر نفسیات ، تاریخ عالم سے واقف ، قوموں کے عروج و زوال ، رہن سہن ، عُرف و عادات ، مراسم و تہوار سے باخبر ، سچا محب وطن ، قومی یکجہتی کا ہمنوا مردہ دلوں میں شعور وبیداری کی تڑپ رکھنے والا ایک کہنہ مشق مربی اور ایک دردمند مصلح قوم پوشیدہ ہے ۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے اسلام کی حقیقت اور اس کی معنویت کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
تفریق ملل ، حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کو جمعیت آدم
اسی سراغ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت رضی الدین معظمؒ رقمطراز ہیں: ’’جب خدا کو منظور ہوا کہ انسان اور اقوام کا بغض و کینہ دور ہوجائے ، دنیا کی تمام اقوام آپس میں یکجا ہوجائیں اور انسانیت کبری کا بول بالا ہو تو جناب الٰہی نے حضور رسول معظم ﷺ کو مبعوث فرمایا ور اسلام کی صورت میں ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھی اور تمام سابقہ ادیات و کتب سماوی و صحف میں ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھی اور تمام سابقہ ادیان و کتب سماوی و صحف کو منسوخ کردیا ۔ ہمیں آج بھی افسوس ہے کہ غیرمسلم اقوام نے آج تک مذہب اسلام کی صحیح پوزیشن کو نہیں سمجھا اور نہ یہ تسلیم کیا کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ۔ اسلام ایک ایسی ازلی اور ابدی صداقت ہے جس کے اقرار و اعتراف کا بیج ابتدائے آفرینش ہی سے قلوب انسانی میں کاشت کردیا گیا تھا ۔ آج دنیا طلب اسلام ہی میں جگہ جگہ بھٹک رہی ہے اور قلوب انسانی و ارواح کو اسلام ہی کی طلب و تلاش ہے‘‘ ۔ (رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کا اسوہ اور حسن معاشرت ۔ص:۶۱)
متذکرہ بالا اقتباس کی روشنی میں حضرت محمد رضی الدین معظمؒ کی نگارشات و تحقیقات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے سینے میں ایک پاک و صفاف دل ہے جو اسلام کی انسانیت نواز حقیقت سے صدفیصد مطمئن ہے ، ان کے سینے میں تعصبیت اور جانبداری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ وہ ہر انسان کے کارہائے نمایاں کے قدرداں نظر آتے ہیں ۔ بلالحاظ مذہب و ملت انسانی سماج کو نقصان پہنچانے والی ہر ہر خرابی کے وہ مخالف ہیں، اس کا مرتکب کسی بھی فرقہ و طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ، وہ انسانیت کا مجرم ہے ۔ اس مختصر مضمون میں اس اہم نقطہ کی تشریح و توضیح مشک ہے ۔ آئندہ کسی مناسبت سے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جائیگی ۔ بہرکیف آپ نے باقیات الصالحات میں اپنی نیک اولاد کے علاوہ ایک غیرمعمولی علمی ، ادبی ، تحقیقی اور اصلاحی ذخیرہ چھوڑا ہے جس کی افایت عصر حاضر میں مزید بڑھ جاتی ہے اس کو منظرعام پر لانا حضرت ممدوح کی صحیح معنی میں تعزیت اور وابستگی کا اظہار ہوگا ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کی قبر کو نور سے بھردے ، ان کی آل و اولاد کو ان کے نقش قدم پر قائم فرما۔ اس علمی و روحانی خانوادہ کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین مدظلہ صدر مفتی جامعہ نظامیہ کے سایہ کو تادیر صحت و سلامتی کے ساتھ دراز فرما۔ آمین بجاہ طہٰ و یٰسین